پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی

سال نو شروع ہو چکا ‘خدا کرے کہ نیا سال اس ملک کی کثیرآبادی کے واسطے خوشیاں لائے اور اس کے حکمرانوں کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ ایسی پالیسیوں پر عمل پیراہوں کہ جن کے ثمرات وطن عزیز کی اس کثیر آبادی کو کہ جو کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے غربت کی لکیر سے اوپر لے آئیں ‘ہمارے حکمرانوں اور ماہرین معیشت کو اس ضمن میں چین نے جو اقدامات اٹھانے ہیں ان کے مطالعے اور وطن عزیز میں ان کے من و عن اطلاق سے کافی مد د مل سکتی ہے یہ اس ملک کی اشرافیہ کے مفاد میں بھی ہے کہ اس ملک میں غریب آدمی کی زندگی بھی آ سا ن ہو جائے کیونکہ غربت اور امارت کی بڑھتی ہوئی خلیج سے اس ملک کی ایک بڑی آبادی کے دلوں میں مٹھی بھر اشرافیہ کے خلاف نفرت کا لاوا پک رہا ہے جو جس دن بھی پھٹا تو وہ سرمایہ دار طبقہ کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا‘ انقلاب فرانس کی مثال ہمارے سامنے ہے روس میں زار روس اور اس کی اشرافیہ کا جو انجام بھوکی اور پیاسی آبادی کے ہاتھوں ہوا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے چین میں ماوزے تنگ کے انقلابیوں نے چینی سرمایہ داروں کی جو اینٹ سے اینٹ 1949 ءمیں بجائی وہ بھی سب کے سامنے ہے اب بھی وقت ہے کہ اس ملک کا سرمایہ دار طبقہ تاریخ سے سبق لےکر ہوش کے ناخن لے اور اشرافیہ خود بخود ملک میں ایسے معاشی نظام کو وضع کرنے میں ارباب بست و کشاد کا ہاتھ بٹائے کہ جس سے اس ملک کی کثیر آ بادی کے معاشی حالات اس قابل ہو جائیں کہ اس کو دو وقت کی باعزت روٹی مل سکے بیماری کی صورت میں مناسب علاج کی سہولت مہیا ہو سکے اور اس کے بال بچوں کی تعلیم کا مناسب انتظام ہو سکے ایسا کر کے اس انقلاب کا راستہ روکا جا سکتا ہے کہ جس کی طرف یہ ملک تیزی سے بڑھ رہا ہے اس ضمن میں انگلستان کی اشرافیہ نے کمال دور اندیشی اور عقل مندی کا ساتھ دیا جب اس نے فرانس اور دیگر ممالک میں انقلابیوں کے ہاتھوں وہاں کی اشرافیہ کی مٹی پلید ہوتے دیکھی کہ جو دولت پر سانپ بن کر بیٹھی ہوئی تھی تو اس خوف کے مارے کہ کل اس کا بھی اپنے ملک کے غریب عوام کے ہاتھوں ایسا انجام نہ ہو اس نے ملک کو سوشل ویلفیئر سٹیٹ میں تبدیل کر دیا‘غریب اور امیر میں فرق مٹا دیا انگلستان کے دیکھا دیکھی اور کئی ممالک نے بھی اپنے ہاں سوشل ویلفیئر سسٹم نافذ کر دیا ‘وطن عزیز کی اشرافیہ کا ایک بڑا حصہ بھی حکومت کے اندر اہم عہدوں پر فائز ہے وہ اگر صدق دل سے چاہتا ہے کہ اس ملک میں انقلاب کا راستہ روکا جائے تو وہ اس معاشی نظام کی طرز کا معاشی نظام پاکستان میں بھی نافذ کر سکتا ہے کہ جو انگلستان ‘ ناروے‘ سویڈن ‘ڈنمارک ‘کنیڈا یا چین میں رائج ہے ۔ لاطینی امریکی ملک بولیویا میں برسوں کی سیاسی محاذ آرائی کے بعد لیتھیم کے بڑے ذخائر کی دریافت ایک اچھے مسقبل کی امید ہے‘ صدر لوئس آرس کی حکومت لیتھیم کے کئی معاہدوں کےلئے روس اور چین کو ترجیح دے رہی ہے‘ ملک میں خام مال کے حقوق کا ایک بڑا معاہدہ بالکل صحیح وقت پر عمل میں آیا ہے۔ یہ معاہدہ واقعی متاثر کن ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس سے بولیویا کے جاری اقتصادی بحران کو درمیانی مدت میں حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے‘ سرکاری اطلاعات کے مطابق روس کا یورینیم ون گروپ اس جنوبی امریکی ملک میں لیتھیم کی پیداوار کے ایک پائلٹ پراجیکٹ میں تقریباً 450 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ بولیویا میں 23 ملین ٹن لیتھیم موجود ہو سکتی ہے‘ اس قیمتی دھات کی اتنی بڑی مقدار کے ساتھ بولیویا دنیا میں لیتھیم کے سب سے بڑے ذخائر والا ملک بن جائےگا۔