اس بات میں کسی شک و شبہ کی کم گنجائش ہے کہ امریکہ کی یہ ہمیشہ سے پالیسی رہی ہے کہ وہ اگر کسی حکومت کو یا ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتا ہے تو اس میں دہشت گردی پھیلا کر انتشار کی صورت حال پیدا کر دیتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ ان مسلح جتھوں کو استعمال کرتا ہے جو اس نے پیسوں کے زور پر مختلف ممالک میں بنائے ہوتے ہیں ان کو عسکری زبان میں mercenaries کہا جاتا ہے یعنی کرائے کے فوجی اس قسم کے عسکری جتھوں کی تشکیل اور پھر ان کی پرورش آج کل سپر پاورز کا شیوہ بن چکا ہے اور امریکہ اس روش میں پیش پیش ہے۔ عین الیکشن کے وقت وطن عزیز میں سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کے جلوسوں پر مسلح حملے بڑے معنی خیز ہیں ان سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ اس ملک کے دشمن یہ بالکل نہیں چاہتے کہ یہ ملک پٹری پر چڑھے اور اس میں منتخب حکومت کے قیام کے بعد سیاسی استحکام پیدا ہو ہمارے سیاسی رہنماﺅں کا
بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائیں اور عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کے واسطے میڈیا کا بھر پور استعمال کریں اور جلسے جلوسوں کی روش کو موجودہ وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوے امن کے حصول کے وسیع تر مفاد کی خاطر سر دست ترک کر دیں تاکہ وہ کسی بھی دہشت گردی کی کاروائی کا شکار نہ ہو سکیں پاکستان سے غیر قانونی افغان باشندوں کی وطن واپسی کاسلسلہ تو جاری ہے پر ایک عرصہ گزر جانے کے بعد بھی عوام کو ارباب اقتدار نے یہ نہیں بتایا کہ سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کو آخر ان کے عہدے سے کیوں ہٹایا گیاکہ جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر افغان باشندوں کو واپس افغانستان بھجوانے کی پالیسی میں پیش پیش تھے‘ دریں اثنا افعانستان سے دراندازی بدستور جاری ہے جس سے وطن عزیز میں دہشت گردی کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے تو اپنے طور پر ڈیورنڈ لائن پر ملیشیا کے قلعے بھی بنا ڈالے ہیں اور خار دار تاروں سے بھی اسے فول پروف بنایا ہے پر افغانستان کی جانب سے اس ضمن میں خاطر خواہ کام نہیں ہوا اور بارڈر مینجمنٹ جتنی مظبوط ہونی چاہئے تھی اتنی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔