قائد ملت لیاقت علی خان کرنال بھارت میں سینکڑوں گاﺅں کے مالک تھے قائد اعظم کے دست راست ہونے کے ناطے تحریک پاکستان میں ان کا کلیدی کردار رہا تھا وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے کئی کئی مرتبہ ان کی اہلیہ رعنا لیاقت علی خان نے ان سے کہا کہ آپ پاکستان میں روزانہ بھارت سے آ ئے ہوئے ہزاروں بھارتی مسلمانوں کو پلاٹ اور مکان الاٹ کر رہے ہیں ‘اپنے لئے بھی کوئی مکان الاٹ کر لیں کہ آخر آپ بھی تو بھارت میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئے ہیں اس سوال کا وہ ہمیشہ یہ جواب دیتے کہ جب تک ہندوستان سے آئے ہوئے آ خری مہاجر کو میں گھر الاٹ نہیں کر لیتا میں ایسا بالکل نہیں کرو ں گا‘ قائد ملت کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ کے پاس رہنے کو اپنا گھر تک نہ تھا حکومت پاکستان نے ان کو ہالینڈ میں پاکستان کا سفیر مقرر کر کے ان کے دال دلیہ اور گھر کا مسئلہ حل کیا نیا نیا پاکستان بنا تو خیبر پختونخوا کو ان دنوں این ڈبلیو ایف پی کہا جاتا تھااس وقت صوبے کی سرکاری گاڑیوں کے پول میں کل پانچ سرکاری گاڑیاں تھیں ان میں ایک تووزیر اعلیٰ کے زیر تصرف تھی اب مسئلہ یہ بنا کہ وزیر اعلیٰ کی کابینہ میں وزراءکی تعداد پانچ تھی اور باقی ماندہ سرکاری گاڑیاں صرف چار تو ان کو پانچ وزرا پر اس طرح تقسیم کیا گیا کہ انہوں نے اگر صوبے کے کسی شہر کا دورہ کرنا ہوتا تو وہ باری باری جاتے ایک نئی گاڑی خریدنے کے واسطے بھی حکومت کے پاس پیسے نہ تھے اور یہ نظام اس کابینہ نے ایک برس تک چلایا، یہ اس قسم کی قناعت کرنے والے لوگ تھے کہ جنہوں نے پاکستان بنایا تھا پر یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب یار لوگوں نے سیاست کو عبادت سمجھا تھا تجارت نہیں بنایا تھا‘ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے سردار اورنگزیب خان گنڈہ پور نے بھی بطور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا بڑا مثالی وقت گزارا‘ ان کی مالی دیانتداری قابل رشک تھی‘ سردار اورنگزیب 1940 کی قرارداد پاکستان کے محرکین میں شامل تھے وہ 23مارچ 1940 کو منٹو پارک لاہور میں موجود تھے کہ جب قرارداد پاکستان منظور کی جا رہی تھی اسی طرح سردار عبدالرب نشتر کی مالی دیانت داری بھی اظہر من الشمس تھی بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ ان کے پاس الیکشن لڑنے کے لئے پیسے نہ تھے جس کے واسطے ان کو پشاور میں واقع اپنا گھر فروخت کرنا پڑا تھا ‘خیبر پختونخوا کے ایک گورنر جنرل غواث کے صاحبزادے نے پشاور سے راولپنڈی جانا تھا اس کو گورنر صاحب نے سرکاری موٹر میں بھجوانے سے انکار کر دیا اور اسے پرائیویٹ بس میں جانا پڑا ‘ پاکستان کے ایک سابق صدر جنرل سکندر مرزا کو جب 1958ءمیں ملک بدر کیا گیا تو دال دلیہ پیدا کرنے کے لئے ان کو لندن کے ایک درمیانہ درجہ کے ہوٹل میں بطور اسسٹنٹ منیجر نوکری کرنا پڑی تھی غلام اسحاق خان نے جب وہ سینٹ کے چیرمین تھے اپنے اکلوتے بیٹے کو اسلام آباد کے ایک شاپنگ ایریا میں سرکاری گاڑی میں جانے سے روک دیا اور پھر وہ ٹیکسی میں گیا،ان مثالوں کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس ملک میں کئی ایسے بااثر افراد بھی گزرے ہیں کہ جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں سرکاری مراعات کا بے جا استعمال کرنے سے گریز کیا ‘ان کاذکر بار بار کرنا ضروری ہے تا کہ نئی نسل ان سے سبق حاصل کرے ۔ان چند ابتدائی کلمات کے بعدان امور کا ذکر بے جا نہ ہو گا لگ یہ رہا ہے کہ ملک دشمن عناصر ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں جن کی وجہ سے ملک میں بروقت الیکشن کا انعقاد نا ممکن ہو جائے وہ ایسا اسلئے کررہے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہ ہو کہ جو صرف آزادانہ اور شفاف الیکشن کے انعقاد سے ہی پیداہو سکتا ہے اور وطن عزیز انتشار کا شکار رہے‘ مولانا فضل الرحمان صاحب نے اس ہفتے افغانستان کے دورے پر جانا تھاہو سکتا ہے وہ ان سطور کے چھپنے تک کابل جا چکے ہوں یا جانے والے ہوں ان کے افغاستان کے دورے صرف اس صورت میں سودمند ثابت ہو سکتے ہیں اگر فارن آفس میں مامور افغانستان امور پر دسترس رکھنے والے اہلکاروں کا ایک وفد بھی ان کے ساتھ جائے اور وہ بارڈر مینجمنٹ کے معاملے کو سلجھائیں کہ جو اب تک تسلی بخش نہیں ہے ۔
س کی وجہ سے روزانہ پاک افغان بارڈر پر تعینات پاکستانی اور افغان بارڈر فورسز میں چھوٹی موٹی باتوں پر جھڑپ کا خطرہ رہتاہے۔