منشیات کا استعمال اور جوان نسل 

تعلیمی اداروں کے طلبہ میں منشیات کے استعمال کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے teenage یعنی نوعمری کاوقت ہر فرد کےلئے بڑانازک قرار دیا گیا ہے اس میں وہ بن بھی سکتا ہے اور بگڑ بھی ‘اس عمر میں دماغ سے زیادہ دل ہر فرد پر حاوی رہتا ہے‘ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اسی عمر میں یعنی 13اور انیس برس کی عمر کے دوران اکثر نوجوان سگریٹ نوشی اور دیگر منشیات کا شکار ہو جاتے ہیں ‘اس طرح وہ پھر کسی بھی سرکاری ملازمت کیلئے میڈیکلی ان فٹ ہو جاتے ہیں وہ بلڈ پریشر اور دیگر امراض میں بھی بری طرح مبتلا ہو جاتے ہیں اگر والدین اپنے بچوں کی نوعمری میں حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھیں تو کافی حد تک وہ ان کو اس علت سے بچا سکتے ہیں ‘ نیز یہ ہر تعلیمی ادارے کے پرنسپل اور اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تعلیمی ادارے کے اندر ان افراد کا داخلہ ممنوع قرار دیں کہ جو تعلیمی اداروں کے اندر کینٹینز میں منشیات کو فروخت کرنے ہیں کسی زمانے میں احتیاط کا یہ عالم ہواکرتا تھا کہ اگر کوئی لیکچرر سگریٹ نوشی کا عادی ہوتا تو وہ کلاس روم میں سٹوڈنٹس کے سامنے کبھی بھی سگریٹ نوشی نہ کرتا اور لیکچر میں وقفے کے دوران سٹاف روم میں جا کر وہاں سگریٹ پیتا ‘ سگریٹ کے تمباکو کے اندر چرس مکس کر کے فروخت کرنے کا کاروبار تو اس ملک میں ایک عرصے سے جاری تھا کچھ عرصے سے آئس کے نام سے ایک نشہ آ ور پاوڈر کا نشئی افراد بڑے شوق سے استعمال کر رہے ہیں جو اس ملک کی جوان نسل کے واسطے سم قاتل سے کم نہیں ہے خدا لگتی یہ ہے کہ کسی بھی قوم یا ملک کو اٹیم بم گرانے سے اتنا تباہ نہیں کیا جا سکتا کہ جتنا اس کے نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کو عام کرنے سے اسے برباد کیا جا سکتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کو منشیات کے استعمال کی لعنت سے پاک کرنے کےلئے تمام مکتبہ ہائے فکر کی سیاسی جماعتوں کو اپنے فروعی اختلافات ختم کر کے ایک متحدہ جنگ کرنا ہو گی ورنہ یہ لعنت ہماری جوان نسل کو دیمک کی طرح چاٹ جائے گی‘ ان ابتدائی سطور کے بعد چند اہم قومی اور عالمی مسائل کا اگر ایک ہلکا سا جائزہ لے لیا جائے تو کوئی قباحت نہ ہو گی‘ الیکشن کے لئے ملک کی سیاسی جماعتیں صف بندیوں میں مصروف ہیں مرکز میں اکثریت حاصل کر کے وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل کرنے کے واسطے ن لیگ اور پی پی میں گھمسان کا رن پڑنے کا امکان ہے جے یو آئی نے ان دونوں جماعتوں میں سے جس کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالا اس کے مرکز میں کامیابی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں پر اس کےلئے جے یو آئی ملک کی صدارت کا مطالبہ کر سکتی ہے پر یہاں پرابلم یہ ہو گا کہ اس منصب پر خود پی پی اور ن لیگ کی اپنی نظر بھی ہے چنانچہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان شطرنج کا یہ کھیل ایک نہایت ہی دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے سر دست اس کھیل کا کوئی کھلاڑی بھی اپنے کارڈ کھل کر نہیں بتلا رہا اگر تو اس الیکشن میں آزاد امیدواروں کی ایک بڑی کھیپ کامیاب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچ جاتی ہے تو وہ بھی وزارت عظمیٰ کے منصب کو حاصل کرنےوالے خواہش مند امیدواروں سے اچھے خاصے سیاسی اور مالی مفادات حاصل کرنے کے بعد ہی اپنی سیاسی وفاداریاں اس امیدوارکے پلڑے میں ڈالے گی کہ جو ان کو سب سے اونچی بولی دے گا قصہ کوتاہ خدشہ یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کے منصب کے خواہشمند افراد کو ابھی کئی سیاسی مراحل سے گزرنا ہے چیف جسٹس صاحب کے حالیہ ریمارکس قابل توجہ ہیں کہ لگتا ہے الیکشن نہیں ہونے دئیے جا رہے۔