منیر نیازی کا یہ شعر حسب حال ہے کہ ”یہ میرے ملک پہ آسیب کا سایہ ہے کہ کیاہے۔کہ حرکت تیز تر ہے اور سفرآہستہ آہستہ“ ایوان اقتدار میں آنے کی خواہش رکھنے والے افراد باتیں توبہت کرتے ہیں ‘بلند بانگ دعوﺅں کی بھی بھر مار ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر اس ملک کی کایہ پلٹ دیں گے ‘ پر زمین پر کبھی بھی اتنا کام عملاً نہیں دکھائی دیا کہ جتنے دعوے کئے جاتے تھے ‘ اس جملہ معترضہ کے بعد عرض ہے کہ اسلام آباد الیکشن‘ اپیلیٹ ٹریبونل کے یہ ریمارکس بڑے معنی خیز ہیں کہ الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسران کو تربیت تو فراہم کی مگر ان کو پورا قانون نہیں پڑھایا گیا‘ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران ریٹرننگ افسران صدق دل سے بغیر کسی خوف و خطر ان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیں جو قانونی تقاضے نہ پورے کرتے ہوں اور پھر speaking orders سپیکنگ حکمنامے لکھیں جو غیر مبہم ہوں تو اپیلیٹ ٹریبونل کا ان کے حکمناموں کے خلاف اپیلیں سننے کا کام کافی سہل ہو سکتا ہے ۔ اگلے روز دنیا بھر میں کشمیریوں کا یوم حق خودارادیت منایا گیا ‘1949 ءمیں اقوام متحدہ نے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں76 برس قبل جو تاریخی قرارداد منظور کی تھی تب سے لے کر آج تک کشمیریوں پر بھارت سرکار کے جبر اور ظلم کی داستان افسوسناک ہے ‘میڈیا میں آئندہ الیکشن کے ممکنہ نتائج کے بارے میں مختلف سیاسی اکابرین کے جو بیانات چھپ رہے ہیں‘ ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ سر دست ملک کی تقریباً تقریباً ہر سیاسی پارٹی اندرونی طور پر بھی خلفشار کا شکار ہے اور الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے آپس میں ممکنہ انتخابی اتحاد کے بارے میں بھی کچھ وثوق سے کہنا قبل ازوقت ہو گا ‘گو ہر سیاسی جماعت کے لیڈر یہ دعویٰ ضرور کر رہے ہیں کہ آئندہ حکومت ان کی ہی ہوگی ۔ آج ملک کو تعلیم سب کیلئے مہم کی طرح کے پراجیکٹ لانچ کرنے کی ضرورت ہے کہ جس کے تحت ضم اضلاع میں پانچ سالوں میں دس لاکھ بچوں کے داخلے کا ٹارگٹ اور سرپلس سکولوں کو ٹیکنیکل سینٹرز میں تبدیل کرنے کا پروگرام ہے یہ امر افسوسناک ہے کہ ایک سال میں ملکی قرضوں میں 12430ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے‘ قرضہ قرضہ ہوتا ہے‘ بھلے وہ ملکی ہو یا غیر ملکی‘ دنیا میں صرف بھارت ہی نہیں اور بھی کئی ممالک ہیں کہ جو کسی دور میں ہماری طرح قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے‘ پر ان کی قیادت نے ایسے معاشی ماڈل مرتب کئے کہ ان کی اس لعنت سے جان چھوٹ گئی ‘اس ضمن میں ھمارے ماہرین معشیت میڈیا پر آ کر سادہ الفاظ میں قوم کو بتلائیں کہ آخر انہوں نے کس معاشی ماڈل کا اطلاق کر کے اپنے اپنے ملک سے اس لعنت کو ختم کیا اور ہم ایسا کیوں نہیں کر پا رہے؟بزرگوں سے ہم نے سنا ہے اور کتابوں میں ہم نے پڑھا ہے کہ ایک اونس لکھنے کے واسطے کسی بھی لکھاری کو ایک ٹن پڑھنا پڑتا ہے اپنا خون جلانا پڑتا ہے تب کہیں جا کر کوئی کتاب یا تحریر تخلیق ہوتی ہے کتاب کو انسان کا بہترین دوست بھی قرار دیا گیا ہے افسوس کہ من حیث القوم ہم نے اس دوست کو ایک عرصہ دراز سے ٹھکرا دیا ہے‘ کاش کہ انگلستان کی طرح وطن عزیز میں بھی جگہ جگہ لائبریریوں کا ایک جال بچھا ہوتا جن میں ہر مضمون اور عنوان پر پرانی اور جدید کتب مطالعے کے واسطے ہر علم دوست فرد کودستیاب ہوتیں اور ہمارے شعبہ تعلیم سے وابستہ ماہرین ایسا تعلیمی ڈھانچہ مرتب کرتے کہ ہر طالب علم کو امتحانی پرچے حل کرنے کے واسطے ایک سے زیادہ کتب کا مطالعہ کرنے کی لامحالہ ضرورت پڑتی اس طرح کر کے رٹا سسٹم کا خاتمہ کیا جا سکتا تھا اور طلبہ میں کتب بینی کو فروغ دیا جا سکتا تھا اس ملک میں اچھے لائبریرینز کا فقدان بھی ہے‘ لائبریری سائنس کا فروغ ضروری ہے ملک میں لائبریریاں چلا نے کے واسطے تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت ہے جو سر دست میسر نہیں ہے‘ وزارت تعلیم کا قلمدان ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہونا ضروری ہے کہ جو اچھے خاصے تعلیم یافتہ ہوں‘ ایک دور ایسا تھا کہ ہمارے کئی پارلیمنٹرینز کی اپنی ذاتی لائبریریوں میں ہزاروں کتابیں ہوتی تھیں ‘ اس ضمن میں میاں ممتاز دولتانہ‘ حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو کا نام لیا جاتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ جب وہ اسمبلی کے فلور پر کسی مضمون پر بولتے تھے تو ان کے منہ سے پھول جھڑتے تھے۔