بھارت کی طرف سے پاکستان کی تقلید

پاکستان کی دیکھا دیکھی اب بھارت نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ اپنی بین الاقوامی سرحدوں پر خاردار تاریں لگانے کا کام آئندہ سال دسمبر تک مکمل کر لے ‘یاد رہے کہ پاکستان افغان بارڈر پر خیبرپختونخوا میں 1343اور بلوچستان سرحد پر 1268 کلومیٹر باڑلگا چکا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے کابل میں افغانستان کے حکمرانوں سے پاک افغان تعلقات میں بہتری لانے کے بارے مذاکرات شروع ہو چکے ہیں ‘مولانا فضل الرحمان کا کابل جا کر افغان حکام سے کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دیگر امور پر بات چیت اچھا اقدام ہے کیوں کہ اس وقت خطے میں امن و امان کی صورتحال جتنی بہتر ہو گی ‘اتنا ہی دونوں ملکوں کی ترقی و خوشحالی کی راہ ہموار ہو گی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاک افغان بارڈر مینجمنٹ کو موثر بنایا جائے اور افغانستان پر باور کرایا جائے کہ آئے دن پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں افغانستان کی سر زمین سے آ پریٹ operateکرنے والے مسلح عسکری عناصر کی وجہ سے پاکستانی عوام کے دلوں میں کابل حکومت کے خلاف خدشات پائے جاتے ہیں اور وہ اب اپنی حکومت سے یہ مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ اگر افغان حکومت معاشی میدان میں افغانستان کو جو بے پناہ راہداری کی سہولیات فراہم کر رہی ہے اور ان کے باوجود افغانستان پاکستان دشمن عناصر کو اپنی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے باز نہیں رکھ سکتا تو حکومت پاکستان کو بھی ان اقتصادی مراعات کو ختم کرنا چاہیے جو وہ افغانستان کو معاشی میدان میں دے رہا ہے اس ملک میں یہ کبھی شاذہی ہوا ہے کہ بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑنے والے کسی امیدوار نے اپنے انتخابی حلقے کے عوام سے یہ وعدہ کیا ہو کہ وہ اقتدار میں آ کر زندگی کے مختلف شعبوں یہ یہ ترقیاتی منصوبے شروع کرے گا اس قسم کے دعوے عام طور پر سیاسی پارٹی کی سطح پر کئے جاتے ہیں پر یہ کریڈٹ لکی مروت سے تعلق رکھنے والے سیف اللہ فیملی کے برادارن کو جاتا ہے کہ جنہوں نے اگلے روز لکی میں ایک عوامی اجتماع میں اعلان کر دیا کہ اگر ان کے علاقے کے عوام نے ان کو الیکشن میں جتوایا تو وہ اپنے علاقے کے لئے فلاں فلاں ترقیاتی منصوبوں کا اجرا کرینگے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ماضی میں جب بھی سیف اللہ فیملی جس سے ہماری مراد انور سیف اللہ ‘ہمایون سیف اللہ اور سلیم سیف اللہ ہے‘ ایوان اقتدار کا حصہ رہی تو انہوں نے لکی مروت میں وہ ترقیاتی پروگرام کئے کہ جو عوام دوست تھے ‘یہ امر خوش آئند ہے کہ آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے اگلے بجٹ میں موسمیاتی تبدیلی خطرات سے نمٹنے کے لئے پاکستان کے واسطے 350 ارب ڈالر مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن وجوہات کی وجہ سے دنیا بشمول پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی واقع ہوئی ہے ان میں وطن عزیز کا اتنا بڑا ہاتھ نہیں ہے کہ جتنا دنیا کے ترقی یافتہ بڑے ممالک کا ہے۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی کے مصداق پاکستان مفت میں موسمیاتی تبدیلی کا بری طرح شکار ہوا ہے اب متعلقہ سرکاری اداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ابھی سے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیں کہ عالمی مالیاتی اداروں سے اس ضمن میں ہمیں جو مندرجہ بالا رقم ملے اس کا بہتر استعمال کہاں کہاں کیا جا سکتا ہے خیال رہے کہ ایسا فول پروف سسٹم وضع کرنا ہوگا تاکہ اس سے امدادی رقم میں کہیں گھپلا نہ ہونے پائے چونکہ یہ رقم عالمی اداروں سے آ ئے گی لہٰذا اس کا آڈٹ بھی ہونا ہے ۔یہ بات ہم نے اس لئے لکھی کہ ماضی میں کئی شعبوں میں عالمی امداد کا درست طریقہ سے استعمال نہ کرنے پر وطن عزیز کی سبکی ہوتی آئی ہے۔