حکومت چلانے کے لئے ایک عرصے سے دنیا کے جمہوری ممالک میں دو اقسام کے نظام چل رہے ہیں ایک کو صدارتی تو دوسرے کو پارلیمانی نظام کہا جاتا ہے پارلیمانی نظام کی بہترین شکل آپ کو انگلستان میں ملے گی جب کہ صدارتی نظام کی چین میں‘انگلستان کو پارلیمانی جمہوریت کی ماں بھی کہا گیا ہے انگلستان میں یوں تو وزیراعظم کو ملک کا حکمران سمجھا جاتا ہے پر وہ ہر لحاظ سے پارلیمان کے تابع ہوتا ہے وہ وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن پر صرف اس وقت بیٹھ سکتا ہے کہ جب پارلیمان کے اراکین کی اکثریت اسے چنے بالفاظ دیگر اسے حکومتی امور میں ہر قدم پر پارلیمانی اراکین کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے انگلستان کے علاہ دنیا کے کئی اور ممالک میں بھی پارلیمانی جمہوریت پروان چڑھی ہے ان سب کا ایک خاصہ یہ بھی رہا ہے کہ ان میں صرف دو یا زیادہ سے زیادہ تین سیاسی جماعتیں موجود ہیں یا تھیں الیکشن میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی سیاسی پارٹی حکومت بناتی ہے اور ووٹوں کے حساب سے الیکشن میں دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی پارلیمان میں اپوزیشن پارٹی کا کردار ادا کرتی ہے اپوزیشن میں بیٹھنے والی سیاسی پارٹی حکومت کے ہر اقدام پر کڑی نظر رکھتی ہے اور اس طرح اس پر ایک قسم کا ہر وقت سیاسی دباﺅ رہتا ہے کہ وہ کوئی بھی ایسا کام نہ کرے جو ملک کے آئین یا کسی قانون کے خلاف ہو‘ انگلستان کی پارلیمانی جمہوریت کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ ہر منگل کے دن پورے ایک گھنٹے تک انگلستان کا وزیر اعظم بلا ناغہ پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر اپوزیشن کے ہر ممبر کے سوال کا جواب دیتا ہے انگلستان کی پارلیمانی جمہوریت کا ایک اہم ادارہ تو ہاوس آف کامنز ہے جسے آپ قومی اسمبلی سمجھ لیں اور ایک ادارہ ہے ہاﺅس آف لارڈز جسے آپ اپنی سینٹ کے مساوی تصور کر لیں انگلستان کی پارلیمانی جمہوریت کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اس کے مندرجہ بالا دونوں اداروں کے اراکین اجلاسوں کے دوران جو تقاریر بھی کرتے ہیں انہیں ہر ماہ ایک کتاب کی شکل میں چھاپا بھی جاتا ہے جس کا نام ہے ہینسرڈ Hansard ا ب تو ایک عرصے سے بی بی سی کا ایک پورا ٹیلی ویژن چینل پارلیمنٹ کے اجلاسوں کی لائیو کوریج بھی کر رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ انگلستان کے معاشرے کے ہر لحاظ سے بہترین لوگ یا تو آپ کو میڈیا میں کام کرتے نظر آتے ہیں اور یا پھر وہ ہاﺅس آف کامنز میں آپ کو نظر آتے ہیں اور غالبا ًوہاں پارلیمانی جمہوریت کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے اس نظام کے بالکل بر عکس چین میں جو حکومتی نظام ماﺅزے تنگ نے1949ءکے انقلاب کے بعد رائج کیا ہے اسے آپ صدارتی نظام کہہ سکتے ہیں حکمران کمیونسٹ پارٹی کی ہائی کمانڈ اپنے اراکین میں سے بہترین افراد کو ملک کے اہم ترین مناصب پر تعینات کرتی ہے اور دیکھا گیا ہے کہ 1949 ءسے لے کر اب تک ایسے افراد کو اس کے ہاتھوں چینی عوام کی قیادت پر مامور کیا گیا ہے کہ جنہوں نے معاشی تعلیمی عسکری اور سیاسی طور پر چین کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ہے یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نہ تو انگلستان میں رائج طرز حکومت کو اپنا سکے اور نہ چینی ماڈل سے استفادہ کر سکے۔
ان ابتدائی کلمات کے بعد چند اہم قومی اور عالمی معاملات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا بے جا نہ ہوگا ملک میں امن عامہ کی صورت حال بدستور قابل تشویش ہے شایدہی کوئی ایسا دن ہو کہ جب دہشت گردی کی کاروائی میں ہمارے جوان جام شہادت نوش نہ کرتے ہوں کبھی پولیو ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کو شہیدکیا جا رہا ہے تو کبھی پاک افغان بارڈر کی رکھوالی کرنے والوں کو ان حالات میں اس ملک کا ہر محب وطن باسی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر خدا نخواستہ الیکشن کے دن بھی یہی کچھ معمول رہا تو خدا خیر کرے اس ملک کی بقا کا کیا بنے گا کیونکہ اگر فوری الیکشن کے بعد صحیح معنوں میں عوامی حکومت اس ملک میں برسر اقتدار نہیں آتی تو یہ امر اس ملک کی سالمیت کے واسطے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے‘ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیاسی جماعتوںکے اراکین الیکشن مہم کے سلسلے میں جو جلسے جلوس منعقد کر رہے ہیں ‘ان کو دہشت گرد دہشت گردی کا نشانہ بنا کر وطن عزیز میں امن عامہ کو اتنا مخدوش بنا سکتے ہیں کہ ارباب اقتدار بہ امر مجبوری الیکشن کی تاریخ کو بڑھا دیں‘ اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ بجائے کھلے میدانوں یا چوکوں میں مجمع لگا کر جلسے کرنے کے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائیں اور ریڈیو ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعے عوام سے مخاطب ہوں اور ان کو اپنے اپنے منشور سے آ گاہ کریں۔ وطن عزیز میں جان لیوا سردی کی لہر کی وجہ سے بہتر ہوتا اگر سر دست کسی بھی لیول کے سکولوں کو نہ کھولا جاتا کیونکہ فلو کے ساتھ ساتھ کورونا کی وباءنے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا ہے جو کمسن بچوں اور بچیوں کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔