سیاسی مصلحتوں کی تباہ کاریاں 

دفاعی تعاون بڑھانے پر غور کرنے کیلئے پاک سعودیہ اور ترکی کے درمیان سہ فریقی اجلاس کا حالیہ انعقاد ایک صائب اقدام تھا پر ضرورت اس امر کی ہے کی اس کا دائرہ وسیع کر کے اس میں ایران کو بھی شامل کیا جاے صرف اسی صورت میں ہی اس خطے کے واسطے یہ دفاعی تعاون زیادہ موثر اور کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ قومی ایئر لائنز پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کی تفصیلات کے بارے میں میڈیا میں خبریں پڑھ کر ان تمام محبان وطن کو دکھ ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنی قومی ائیر لائن کے اچھے دن دیکھے تھے وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایک ایسا دن بھی آئے گا کہ جب ان کی قومی ایئر لائنز کو یہ برے دن بھی دیکھنے پڑیں گے کہ جن کا آج اس کو سامنا ہے اگر اس کو کمرشل اداروں کی طرح چلایا جاتا اور اس کے معاملات میں سیاسی مداخلت سے گریز کیا جاتا تو اس کی مالی حالت اس قدر دگر گوں نہ ہوتی کہ جتنی آج ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی آئی اے کو ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان کی طرح ان کے بعد کیوں نہیں چلایا گیا‘ پبلک سیکٹرز میں کام کرنے والے اداروں کو اچھے قابل اور ایمان دار سربراہ اگر مل جائیں تو وہ بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں جس کی جھلک قوم نے مندرجہ بالا دو اصحاب کی بطور چیئرمین پی آئی کے ادوار میں دیکھی ہے بالکل اسی طرح ایک دور تھا کہ جب 
گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس جسے عرف عام میں جی ٹی ایس کہا جاتا تھا خیبرپختونخوا کی سب سے بہترین بس سروس ہوا کرتی تھی کیونکہ اس کے کرتا دھرتا بھی اسے خالصتاً کمرشل بنیادوں پر چلایا کرتے تھے حالانکہ ان کا تعلق بھی پبلک سیکٹر سے ہی تھا پاکستان سٹیل مل بھی کم وبیش ان ہی وجوہات سے مالی طور پر ڈانواں ڈول ہوئی ہے کہ جن کی وجہ سے پی آئی اے اور جی ٹی ایس کا ستیا ناس ہوا ہے۔ اس خوف سے ہر محب وطن کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے کہ اگر خدا نخواستہ وطن عزیز میں جاری دہشت گردی کی لہر کم نہ ہوئی اور اس سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا تو کیا وقت مقررہ پر الیکشن ہو بھی پائیں گے کہ نہیں اسے اس بات کی سمجھ بھی نہیں آ تی کہ آخر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اس بات پر متفق کیوں نہیں ہوتے کہ وہ عوام سے اپنے خطابات کو صرف اور صرف ٹیلی ویژن کی سکرین تک محدود کر دیں تاکہ دہشت گردی کی ممکنہ وارداتوں سے ان کے جلسوں اور جلوسوں میں ہلاکتوں کے 
واقعات کا سد باب بن سکے جب دنیا کے کئی ممالک میں الیکشن کی مہم کو وہاں کے سیاست دان انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ کر کے ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے چلا سکتے ہیں تو ہم آ خر ایسا کیوں نہیں کر سکتے‘ جوں جوں الیکشن کی تاریخ نزدیک آ رہی ہے سیاسی جماعتوں کے لیڈرز کے ایک دوسرے کے خلاف تابڑ توڑ بیانات میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ ان میں کس قدر زیادہ اختلافات ہیں وفاق میں حکومت بنانے کے واسطے ن لیگ اور پی پی پی دونوں سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہیں زرداری صاحب بہر صورت بلاول کو وزارت عظمی کے سنگھاسن پر بٹھانے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ ن لیگ یہ منصب مریم نواز یا پھر نواز شریف کیلئے حاصل کرنے کے درپے ہے ظاہر ہے یہ دونوں سیاسی پارٹیاں دیگر سیاسی دھڑوں اور آزاد امیدواروں کی ہمدردی حاصل کرنے کے واسطے اونچی سے اونچی بولی لگائیں گی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کے بارے میں سر دست کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ تمام سٹیک ہولڈرز اس بات کو اپنے پلے باندھ لیں کہ وطن عزیز میں الیکشن کا فوری انعقاد اس ملک کی بقا کے واسطے از حد ضروری ہے اگر خاکم بدہن یہ ملک ہی نہ رہا تو وہ سیاست کہاں کریں گے لہٰذا اپنے کردار اور گفتار سے وہ ایسا سیاسی ماحول تشکیل دیں جو غیر جانبدارانہ اور شفاف الیکشن کے انعقاد کی راہ میں ممد و معاون ثابت ہو نہ کہ اس کی راہ میں روڑے اٹکانے۔