علم و دانش کی باتیں


ہمارا المیہ من حیث القوم یہ ہے کہ ہم میں معدودے چند افراد کو چھوڑ کر اکثر لوگ صرف گفتار کے غازی ہیں کردار کے نہیں حقوق العباد پر نہ ہم سوفیصد عمل کرتے ہیں اور نہ ہمارے رہنما ‘ ©ہم آج کے کالم کا آ غاز چند اقوال زریں سے کرتے ہیں جو ہم نے علم و دانش کے خزانے کی کتاب نہج البلاغہ سے رقم کئے ہیں سب سے بڑی دولت مندی یہ ہے کہ دوسروں کے ہاتھ میں جو ہے اس کی آس نہ رکھی جائے‘ فخر و سربلندی کو چھوڑو تکبر و غرور کو مٹاﺅ اور قبر کو یاد رکھو ‘آیئے اب ذرا چند اہم امورپر ایک نظر ڈال لی جائے دوسری جنگ عظیم کے بعد ہٹلر کے خاتمے کے فوراً بعد مغربی ممالک کے اتحاد کہ جس کی قیادت امریکہ کے ہاتھ لگ گئی تھی نے روس کے سربراہ سٹالن اور کمیونزم کے خلاف ایک منظم سیاسی اور عسکری جدوجھد کا آ غاز کیا ‘یہ 1960کی دہائی تھی امریکہ نے اس وقت کی پاکستانی حکومت کی
 قیادت سے پشاور کے نزدیک بڈھ بیر کے مقام پر ایک فوجی اڈہ حاصل کر لیا کہ جہاں سے روزانہ ایک جاسوس فوجی طیارہ جس کو یو ٹو U2کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اڑان بھرتا اور وہ روس کی ملٹری تنصیبات کی فوٹوگرافی کرتا جب روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کو اس کی بھنک پڑی تو اس نے ایک دن اس طیارہ کو روس پر پرواز کرتے مار گرایا اور اس کے پائلٹ گیری پاورز کو بمعہ فوٹوز کے زندہ گرفتار کر لیا اس واقعہ کے بعد پاکستان کے خلاف روس کا دل میلا ہو گیا اور روسی قیادت نے جاسوسی کے اس عمل کو اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا امریکہ کی ہم نے 1951 ءسے لے کر ایک لمبے عرصے تک اندھی تقلید کی جس سے ہم نے خواہ مخواہ روس جیسے بڑے ہمسایہ ملک کی دشمنی مول لی جو ایک عرصہ دراز تک چلتی رہی اور اب جا کر روس کے ساتھ ہمارے تعلقات درست ہوئے ہیں۔ ملکی حالات اس قدر دگر گوں ہیں کہ ان کا ذکر کرتے دل دکھتا ہے ان پر اگر کچھ نہ ہی لکھا جائے تو بہتر ہوگا ۔یہ خبر خوش آئند ہے کہ حوثیوں کے خلاف اتحاد میں شمولیت میں پاکستان نے امریکی دعوت مسترد کر دی ہے اور امریکی حملوں سے پاک نیوی کے جہازوں کی
 تعیناتی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ایران اور سعودی عرب کے درمیان کسی بھی مسئلے پر تنازعے میں ہمیں غیر جانب دار رہنا ہوگا ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان دونوں ممالک میں سے کسی کو بھی نالاں کر سکیں ۔ حکومت کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ بغیر ویزا و پاسپورٹ کسی کو بھی پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی ۔یہ امر افسوس ناک ہے کہ بار بار توسیع کے باوجود افغان حکام نے اس ضمن میں کچھ نہیں کیا اور ہر مرتبہ وہ سیاسی پریشر ڈال کر اس معاملے میں لیت و لعل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لنڈی کوتل میں اگلے روز گاڑی سے 7کلو آئس کی برآمدگی سے ثابت ہے کہ منشیات کی سمگلنگ کتنے عروج پر ہے حکومت اس ضمن میں مناسب قانونی سازی کر کے سمگلروں کو بر سر عام پھانسی دینے کی سزا کیوں نہیں متعین کرتی ۔؟