بارڈر مینجمنٹ کو درست کرنے اور پاکستان آ نے جانے کے واسطے ویزا لینے کی جب بھی بات چلتی ہے تو افغان حکومت اسے دھونس زبردستی اور دباﺅ کے ساتھ سبوتاژ کر دیتی ہے نہ جانے ہر مرتبہ ہمارے ارباب بست و کشاد کابل کے آگے جھک کیوں جاتے ہیں اب دیکھئے ناں سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کیسا دلیرانہ فیصلہ کیا تھا کہ کوئی بھی غیر ملکی باشندہ بشمول افغانی بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے پاکستان نہیں آئے گا‘ اپنی ہر ناجائز بات منوانے کے لئے افغان حکومت پاک افغان بارڈر پر سڑک بند کر کے پاکستان پر پریشر ڈالتی رہتی ہے جس کی تازہ ترین مثال گزشتہ روز پاک افغان بارڈر پر ایک مرتبہ پھر دیکھنے کو ملی‘ دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ اس ملک کے کئی سیاسی لیڈروں کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جیسے طورخم سرحد تو پرسو ں تک دو طرفہ تجارت کے لئے بند تھی ‘ مندرجہ بالا واقعہ تو مولانا فضل الرحمان صاحب کے حالیہ دورہ کابل کے فوراً بعد ظہور پذیر ہوا ہے‘ وقت آ گیا ہے کہ ہمارے ارباب بست و کشاد بھلے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو وہ کابل کے ساتھ اپنی پالیسی کو ری وزٹ کریں ‘ پاکستان کو راہداری کے میدان میں بعض سخت اقدامات اٹھا کر افغاستان کو یہ پیغام ضرور دینا چاہیے کہ اس کی معاشی اور تجارتی خوشحالی کی چابی پاکستان کے ہاتھ میں ہے اور اس نے پاکستان کے خلاف اپنا جارحانہ رویہ اگر ترک نہ کیا اور بھارت کی ڈگڈگی پر ناچنا نہ چھوڑا تو اسے ناقابل تلافی معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔1947 ءسے لے کر تا دم تحریر ہر عالمی فورم پر ہر معاملے اور مسئلے میں افغانستان نے ہمیشہ بھارت کے موقف کو پاکستان کے موقف پر ترجیح دی اور اسے کبھی بھی یہ خیال نہیں آیا کہ پاکستان اس کا ایک ایسا ہمسایہ ہے کہ جو اس کا برادر اسلامی ملک ہے اور افغانستان اور پاکستان کے عوام میں ایک ثقافتی اور رواجی ہم آہنگی بھی موجود
ہے ایک سیاسی لیڈر نے حال میں کہاہے کہ کچھ ممالک پاک افغان تعلقات میں دوریاں چاہتے ہیں کاش وہ ذرا کھل کر ان ممالک کے نام بھی بتا دیتے تو بہتر تھا یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت فوراً سے پیشتر سوشل میڈیا پر سخت سے سخت سنسرشپ نافذ کرے کیونکہ جو مواد اس پر دکھایا جا رہا وہ ملک کی نئی نسل کو اخلاقی طور تباہ کر رہا ہے اس ضمن میں ہمارے قانون ساز ادارے کیوں خواب خرگوش میں مبتلا ہیں وہ کیوں اس لعنت سے قوم کی جان نہیں چھڑاتے اور ایسا قانون لاگو نہیں کرتے کہ جس کے تحت قوم کو برائیوںسے دور رکھا جا سکے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کا یہ بیان سو فیصد درست ہے کہ معاشی صورت حال میں بہتری کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ الیکشن کا انعقاد اس طریقے سے ہو کہ اس کی شفافیت اور غیر جانبداری پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے اور اس نیک کام کے حصول کے واسطے تمام وفاقی اور صوبائی ریاستی اداروں کو ایک پیج پر رہ کر انصاف کا دامن مضبوطی سے پکڑنا ہو گا۔ اس میں کوئی دو آ را نہیں ہیں کہ سی پیک ایک مثالی منصوبہ ہے اس میں انسانیت کے مشترکہ معاشرے کی تشکیل کے واسطے جو نظریہ پیش کیا گیا ہے وہ تمام ممالک کے عوام کی توقعات سے مطابقت رکھتا ہے اور اسی وجہ سے اسے عالمی برادری نے خوش آمدید کہا ہے اس کے تحت 150 سے زائد ممالک اور30 سے زائد عالمی اداروں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں پر کام ہو رہا ہے اس بات میں بھی کوئی دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ عالمی صورت حال میں چین روس تعلقات بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور چین اور روس کی موجودہ قیادت کا آپس میں اتفاق سے ہر معاملے میں قدم اٹھانا اس حقیقت کا غماز ہے کہ وہ جان چکے ہیں کہ تن تنہا وہ امریکہ کا تجارتی معاشی اور عسکری میدان میں مقابلہ نہیں کر سکتے جب کہ ایک ساتھ رہ کر نہ وہ صرف یہ کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں امریکہ پر برتری حاصل کر سکتے ہیں وہ اپنے ملک کے عوام کی معاشی زندگی میں بھی خوشگوار تبدیلی لاسکتے ہیں۔