موسمیاتی اور سیاسی مد و جزر 

یہ بات بلا کسی خوف وتردید کی جا سکتی ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے عرصے میں اس قسم کا نہ تو اس ملک میں کسی نے موسم سرما دیکھا یا محسوس کیا تھا اور نہ موسم گرما جو ہم نے گزشتہ برس محسوس کیا ‘ اس موسمیاتی تبدیلی سے پیشتر تو سردیاں اکتوبر کے وسط سے لیکر فروری کے وسط تک ہوتی تھیں اور پھر موسم بہار 16اپریل تک چلتا تھا جس کے بعد گرمی کا سلسلہ ستمبر کے اختتام تک رہتا تھا یہ کلینڈر اب کافی حد تک متاثر ہو چکا ہے موسمیاتی تبدیلی کو مد نظر رکھ کر متعلقہ حکام شاید اب کوئی دوسرے موسمیاتی کیلنڈر کا اہتمام کریں ‘ جہاں موسمیاتی تبدیلی نے پرانے موسم کے سلسلے کو چوپٹ کر کے رکھ دیا ہے وہاں سر دست ملک کے سیاسی منظرنامے میں بھی ایک عجیب خلفشار نظر آرہا ہے جس سرعت اور تعداد میں ملک کی تقریباً ساری سیاسی جماعتوں سے انکے سرکردہ پرانے رہنما جدا ہو کر یا تو دوسری پارٹیوں میں شامل ہو رہے ہیں یا نئی سیاسی جماعت بنا رہے ہیں اس سے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ سیاست میں نہ تو کوئی حرف آخر ہوتا ہے اور نہ اس کے سینے میں دل‘ آزاد امیدواروں کی حیثیت سے بھی کئی پرانے سیاستدان الیکشن لڑیں گے اور اگر وہ بڑی تعداد میں منتخب ہو جاتے ہیں تو اسمبلیوں میں ان کے 
گروپ کو کوئی بھی پارٹی نظر انداز نہیں کر سکے گی اور اقتدار میں آنے کیلئے ان کے ہر جائز و ناجائز مطالبے کو مانے گی جس سے ہارس ٹریڈنگ کی لعنت ایک مرتبہ پھر ملکی سیاست میں سر اٹھا سکتی ہے‘ الیکشن کمیشن کے قوانین اور الیکشن کے متعلق مختلف معاملات میں بھی وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے‘ الیکشن کے بعد برسر اقتدار آنے والی جماعت کو کئی شعبوں میں اصلاحات لانی ہونگی اور یہ کوئی آ سان کام نہ ہوگا پر ان اصلاحات کے لائے بغیر اس ملک کو درپیش مسائل کو حل بھی نہیں کیا جا سکے گا‘ ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد چند تازہ ترین اہم ایشوز کا ہلکا سا جائزہ بے جا نہ ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرق وسطیٰ امریکہ کے ہاتھ سے نکل گیا ہے چین اور روس کے اتحاد اور ایران کی حقیقت پسندانہ پالیسی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورت حال میں یکسر تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ تائیوان کی ہلہ شیری کرنے سے امریکہ 
باز نہیں آ رہا اور چین اپنے اس موقف پر ڈٹا ہوا ہے کہ چین صرف ایک ہی ہے اور تائیوان اس کا اٹوٹ انگ ہے‘ جس طرح فلسطین ‘کشمیر‘ یوکرائن جیسے تنازعے عالمی امن کیلئے سم قاتل ثابت ہو سکتے ہیں بالکل اسی طرح تائیوان پر امریکہ اور چین میں جھڑپ تیسری عالمگیر جنگ کا باعث سکتی ہے۔ ایرانی صدر کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان کا حالیہ دورہ اسلام آ باد‘ ایران‘ پاکستان اور افغانستان بلکہ اس تمام خطے میں امن کے حصول کیلئے ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے ‘تجربہ یہ بتاتا ہے کہ امریکہ اور دیگر مسلم دشمن عناصر اس خطے کو اپنے مذموم عزائم کے حصول کیلئے سیاسی اور عسکری انتشار کا شکار کرنے کیلئے اکثر افغانستان اور ایران کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتے رہتے ہیں اس کا واحد توڑ اور علاج یہ ہے کہ ان تینوں ممالک کے حکمران عالم اسلام کے وسیع تر مفاد کی خاطر اپنے فروعی اختلافات بالائے طاق رکھ کر آپس میں اتحاد اور یگانگت کا مظاہرہ کریں اگر ان تین ممالک کی کوئی کنفیڈریشن بن سکے تو یہ سونے پر سہاگے والی بات ہو سکتی ہے‘ اس سے نہ صرف یہ کہ ان تینوں ممالک کی معاشی اور اقتصادی حالات میں بدرجہا بہتری آ جائے گی جس سے یہ خطہ سپر پاورز کی آپس میں اقتدار کی جنگ میں آلہ کار بننے سے محفوظ ہوجائے گا۔