نگران وزیر اعلیٰ سید ارشد حسین شاہ نے ایک اعلیٰ سطحی اجلا س کی صدارت کر تے ہوئے اس بات کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ ہمارا صو بہ افرادی قوت کے لحاظ سے بہت ثروت مند ہے یہاں کے نو جوان بیرون ملک جا کر صو بے کیلئے زرمبادلہ کما سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ نو جوانوں کی تعلیم اور تربیت مارکیٹ‘ بازار‘ صنعت اور کاروباری ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ ہوں‘ انہوں نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا ہے کہ اس وقت ہماری یو نیورسٹیوں کی تعلیم اور نو جوانوں کی ڈگریاں صوبائی حکومت کے مختلف محکموں کے تقاضوں سے بھی موافقت نہیں رکھتیں‘ اجلاس میں خو شحا ل خیبر پختونخوا پر و گرام پر عملدرآمد کے سلسلے میں لا ئحہ عمل طے کیا گیا اور مختلف اداروں کو اہداف سپر د کئے گئے یہ ایک کثیر الجہتی پرو گرام ہے‘ اس میں انسانی وسائل کی تر قی کیلئے صو بائی محکموں کے ساتھ‘ سرکاری اور نجی یو نیورسٹیوں‘ فنی تعلیمی اداروں اور صنعت و حر فت‘ مارکیٹ یا کاروبار سے تعلق رکھنے والے اداروں کو ایک مربوط منصو بے کے تحت نو جوانوں کی با مقصد تعلیم اور معنی خیز یا مفید تر بیت کیلئے پا بند کیا گیا ہے خو شحا ل خیبر پختونخوا کا پورا منصو بہ انگریزی میں ہے اس میں سپیشلائزڈ ٹریننگ‘ سکلز ڈیولپمنٹ اور کیپے سٹی انہاسمنٹ جیسے بھاری بھر کم الفاظ کی بھرمار ہے ان الفاظ کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ موافقت کا فقدان یہاں بھی ہے انگریزی کے نامانوس الفاظ ہماری روزمرہ گفتگو سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے صوبے کی 80 فیصد آبادی ان الفاظ سے نا واقف ہے حکومت اور عوام کے درمیان انجان زبان کا یہ خلا جب تک رہے گا ہمارے بڑے بڑے منصو بے ادھورے ہی ہونگے کا لم کے اندر سما نے کیلئے میں نے بڑے منصو بے کی مو ٹی کتاب سے جو نتائج اخذ کئے اردو میں انکا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت یونیورسٹیوں کی موجودہ ڈگریوں کو محکمہ جاتی‘ صنعتی اور کاروباری دنیا کیلئے مفید نہیں سمجھتی اور چاہتی ہے کہ خو شحا ل صو بے کیلئے فنی تعلیم‘ فنی تر بیت اور پیشہ ورانہ تربیت کا جا مع اور مر بوط پروگرام وضع کیا
جائے میڈیکل اور نر سنگ کے شعبے میں بیرون ملک مواقع سے فائدہ اٹھا نے کیلئے مختلف شعبوں مثلاً انستھیز یا‘ ڈائیلا سز‘ الٹرا سونا لو جی‘ ریڈیا لو جی‘ ای سی جی وغیرہ میں سپیشلائزڈ سرٹیفکیٹ‘ ڈپلو مہ اور ڈگریاں دی جا ئیں تاکہ عالمی مارکیٹ میں ہمارے صوبے کے نو جوان دیگر ملکوں کی افرادی قوت کا مقا بلہ کر کے اپنا مقام حا صل کر نے کے قابل ہو جائیں انہوں نے سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں سے کہا کہ ہنر مند طلبا اور طالبات کیلئے مختلف ذرائع سے سکا لر شپ پیدا کریں اور زیادہ سے زیا دہ افرادی قوت کو فنی تر بیت میں داخلہ دینے کا بندوبست کریں طبی شعبے کے علا وہ دوسرے شعبے بھی ہیں مثلاً انفارمیشن ٹیکنالوجی ابھرتا ہوا شعبہ ہے خیبر پختونخوا کی حکومت نے گذشتہ 20 سالوں میں آئی ٹی کے شعبے کو فراموش کیا ہوا ہے تما م شعبوں کیلئے سروس سٹرکچر ہے آئی ٹی کے ما ہرین کا کوئی سروس سٹرکچر نہیں جس گریڈ میں بھرتی ہونگے اسی گریڈ میں ریٹائر ہونگے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں آئی ٹی کے ساتھ سول انجینئرنگ‘ الیکٹریکل‘ میکینکل انجینئرنگ‘ پلمبنگ‘ کو کنگ‘ ٹیلرنگ‘ کا رپینٹری وغیرہ میں فنی تربیت کے مواقع میسر ہوں تو بیروزگار نوجوانوں کی تعداد میں کمی ہو گی نوجوان تعلیم حا صل کرنے کے بعد اپنے خاندان پر بوجھ نہیں ہونگے مو جودہ حا لات میں مارکیٹ کے ساتھ گنے چنے تعلیمی اداروں کا ربط و تعلق ہے مثلاً آئی بی اے کراچی‘ اے کے یو کراچی‘ لمز لاہور اور نسٹ اسلا م آباد اپنے طلباءاور طالبات کو دوران تعلیم ہی کسی صنعتی یا کاروباری ادارے کے ساتھ منسلک کر کے انٹرن شپ کرواتے ہیں ڈگری لیتے ہی نو جوان اس صنعتی یا کاروباری ادارے کا حصہ بن جا تے ہیں خیبر پختونخوا میں 2010ءمیں ”ستوری د پختونخوا“ کے نا م سے فنی تعلیم کے لئے سکا لر شپ رکھے گئے تھے 2014ءمیں اس سلسلے کو بند کر دیا گیاوزیر اعلیٰ نے غیر سرکاری تنظیم کے زیر اہتمام ایک اور منصو بے کا بھی افتتاح کیا ہے جس میں ایک ہزار نو جوانوں کو مفت تعلیم دی جائے گی نئی سکیم خو شحا ل خیبر پختونخوا بہت بامقصد پرو گرام ہے صرف یہ خدشہ ہے کہ سیا سی حکومت آگئی تواسمبلی میں بیٹھے لو گ اس کو بند کر دینگے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی مفاد کے منصوبوں میں خلل نہ پڑنے دیا جائے تاکہ ان کے ثمرات سے عوام مستفید ہو سکیں ۔