غیر ممنوعہ بور کے اسلحہ پرپابندی ناگزیر

چیف جسٹس آف پاکستان نے بجا طور پر فرمایا ہے کہ ملک سے کلاشنکوف کلچر کے خاتمے کی ضرورت ہے ‘کلاشنکوف ممنوعہ بور کے زمرے میں آ تی ہے اور ممنوعہ بور کا اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے کی اجازت صرف اور صرف افواج پاکستان‘ پیرا ملٹری فورس اور پولیس کو ہونی چاہیے۔‘ اگر اس ضمن میں مناسب قانونی تقاضے پورے کر کے اس قسم کے قانون پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے تو ہر سال یہ جو ہزاروں ہلاکتیں کلاشنکوف کے استعمال سے ہو رہی ہیں وہ کبھی نہ ہوں ‘جہاں تک کسی دشمن دار فرد کو اپنی جان کی حفاظت کے واسطے اسلحہ رکھنے کا تعلق ہے تو وہ متعلقہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے اپنی حفاظت کے واسطے غیر ممنوعہ بور اسلحہ کا آرمز لائسنس حاصل کر سکتا ہے‘ یہ حقیقت ہے کہ اس ملک کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے وڈیرے‘ خان خوانین ‘چودھری جو بڑے بڑے جاگیردار بھی ہیں اور سیاسی اثر و رسوخ کے مالک بھی‘ وہ ممنوعہ بور کے استعمال کے خاتمے کی راہ میں حکومتی کوششوں میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں‘ وہ عام لوگوں پر اپنی دھونس اور رعب ڈالنے کے لئے اپنے ساتھ کلاشنکوف سے لیس مسلح افرادبطور باڈی گارڈ پھراتے رہتے ہیں۔پر حکومت کو اب مفاد عامہ میں ممنوعہ بورکا اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے پر پابندی لگانا ہو گی۔الیکشن کی تاریخ کے نزدیک آنے کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی پارٹیوں نے اشتہاروں کے ذریعے دلکش سلوگنز بھی چھاپ چھاپ کر بازاروں اور محلوں کی دیواروں پر چسپاں کرنا شروع کر دیئے ہیں ۔ یہ امر تشویشناک ہے کہ ملک میں ساڑھے نو کروڈ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ذرا اس سوال کا جواب دیں کہ کیا ان افراد میں آپ کو کوئی شخص نظر آ رہا ہے جو ایوان اقتدار کا حصہ بننا چاہتا ہے کہ جو اس ملک میں ہر محمود کو ایاز کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور کر سکے گا‘ یہ اچھی بات ہے کہ آج ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک ہو چلا ہے کہ بغیر سولر اور ونڈ انرجی کو بروئے کار لائے بغیر ملک کی توانائی کی ضروریات کو فوری طور پر پورا نہیں کیا جا سکتا اس لئے پانی سے بجلی کی تیاری کے لئے ابھی سے کام شروع کرنا موجودہ وقت کا اہم تقاقہ ہے ۔