میڈیا کو دیکھنے پڑھنے اور سننے کے بعد اب تو ایسا لگتا ہے ایران اور پاکستان کے درمیان حال میں ہونے والی کشیدگی پر وطن عزیز کے سنجیدہ طبقے بہت پریشان تھے اس لئے یہ خبر خوش آئند ہے کہ ان دونوں فریقین نے اب گفت و شنید کی راہ اپنا لی ہے اس ضمن میں چین اور روس دونوں نے پاکستان اور ایران کومشورہ دیا کہ وہ تشدد کی راہ اپنانے کے بجائے بات چیت کا راستہ اپنائیں اور اس سیاسی دباﺅ نے انجام کار اپنا رنگ دکھایا ہے اور یہ نئی روش اس خطے میں امن کے قیام میں ممد و معاون ثابت ہوگی ۔ ان ابتدائی کلمات کے بعد اگر چند دیگر اہم غور طلب مسائل کا ہلکا سا تجزیہ ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ملک کے کئی دوسرے شہروں کی طرح پشاور میں بھی زیر زمین پانی کی کمی کا مسئلہ سر اٹھا رہا ہے ‘زمین سے ٹیوب ویل یا بورنگ سے پانی اوپر کھینچنے پر ایک لمبے عرصے سے کوئی پابندی یا کنٹرول دکھائی نہیں دیتا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جن علاقوں میں کل تک زیر زمین پانی 150 فیٹ کی کھدائی کے بعد مل جاتا تھا آج وہاں 800 فیٹ تک بھی کھدائی کرو تو پانی ناپید ہے اس پر طرہ یہ کہ من حیث القوم ہم پانی کے استعمال میں اسراف کرتے ہیں اور جہاں ایک بالٹی بھر پانی سے کام چلایا جا سکتا ہے وہاں دس بالٹی پانی ضائع کر دیتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ متعلقہ سرکاری ادارے اس ضمن میں اگر کسی قانون سازی کی ضرورت ہو تو وہ کریں اور پھر سختی سے قوانین کا اطلاق بھی کریں نیز پانی کے غیر ضروری استعمال کو روکنے کے واسطے میڈیا پر عوام کی آ گہی کے کے لئے تمام قومی اور علاقائی زبانوں میں ایک آ گہی مہم کا بھی آ غاز کرنا ضروری ہوگا عوام کو یہ باور کرانا ہوگا کہ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کو پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان جگہوں سے نقل مکانی نہ کرنا پڑے کہ جہاں وہ ہنستی بستی زندگی گزار رہے ہیں تو ان کو پانی کے بے جا استعمال سے اجتناب کرنا ہوگا اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک ہزار کی آبادی کے واسطے ملک میں جتنے ڈاکٹر موجود ہونے ضروری ہوتے ہیں اتنی تعداد میں وہ وطن عزیز میں موجود نہیں ہیں صرف کیوبا غالباً دنیا میں وہ واحد ملک ہے کہ جہاں ہر ایک ہزار افراد کی طبی ضروریات پوری کرنے کے واسطے جتنے ڈاکٹر موجود ہونے چاہئیں موجود ہیں ‘ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ نجی سیکٹر میں بھی میڈیکل کالجوں کے قیام کی حوصلہ افزائی کی جائے ‘گو اس کے ساتھ ساتھ جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ یہ بھی ہے کہ طبی تعلیم کی کوالٹی پر کوئی کمپرومائز نہ کیا جائے اور اس ضمن میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے میڈیکل کالجوں کے معاملات چلانے کے واسطے جو یارڈ سٹکyardstick مقرر کیا ہوا ہے اس کی من و عن پیروی کرنا بھی لازمی ہے اگر میڈیکل کالجوں سے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کو ملک کے اندر ہسپتالوں میں خاطر خواہ جاب فراہم کی جائے گی تو وہ کبھی بھی غیر ممالک کا رخ نہیں کریں گے اور وطن عزیز سے پروفیشنلز کے بایر چلے جانے سے جو brain drain برین ڈرین کا ملک کے اندر خطرہ پیدا ہو سکتا ہے وہ ٹل جائے گا ‘ ان سب باتوں کے حصول کے لئے ایک مربوط ہیلتھ پالیسی درکار ہے ملک کے میڈیکل سیکٹر کی طرف ارباب بست و کشاد کی حد درجہ توجہ درکار ہے ۔