جوں جوں قومی انتخا بات کے دن قریب آرہے ہیں وقت کے ساتھ سیا سی درجہ حرارت میں تیزی آرہی ہے ہمارے ہاں انتخا بی ما حول پوری دنیا سے الگ ہوتا ہے دنیا بھر کے جمہوری مما لک میں انتخا بی مہم تہذیب کے دائرے میں ہو تی ہے‘ شائستگی کے ساتھ ہوتی ہے اس میں قومی امور اور ملکی معا ملا ت پر علمی، آئینی اور قانونی مبا حثے کی فضا دیکھنے کو ملتی ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا کبھی نہیں ہوا ہم اپنے مخا لفین کی انفرادی زند گی پر گفتگو کر کے مہم چلا تے ہیں اور سیا ست کو ملا مت کا جا مہ پہناتے ہیں‘ مرزا غا لب نے کسی اور حوالے سے کہا تھا پھر طواف کوئے ملا مت کو جانے ہے دل پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے‘ ہمارا معا ملہ یہ ہے کہ ہم کوئے ملا مت سے نکلتے ہی نہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورا معاشرہ ملا مت کی زد میں ہے ہمارا سیا سی وطیرہ ایسا بنا ہوا ہے کہ ہر سنیٹر‘ایم این اے، ایم پی اے اور وزیر کو محافظوں کی ضرورت ہوتی ہے پا کستانی شہری جب ملک سے با ہر جا تا ہے تو یہ دیکھ کر حیراں ہو جا تا ہے کہ وزیر وں سے لیکر آفیسروں تک سب لوگ بسوں اور ریلوں میں عام شہریوں کے ہمراہ سفر کر تے ہیں کوئی اپنے ساتھ پو لیس یا سکیورٹی گارڈ لیکر نہیں پھر تا، پڑوسی مما لک بھارت‘نیپال اور اسلامی مما لک ترکی، انڈو نیشیا میں بھی ایسا ہی دیکھنے کو ملتا ہے، ہم نے ایک وی آئی پی سے پوچھا تم سکیور ٹی کے بغیر کیوں گھوم رہے ہو اُس نے کہا میرا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں‘کسی کے ساتھ دشمنی نہیں، ہم نے پو چھا اپنی کار میں کیوں نہیں گھومتے؟ اُس نے کہا میں اتنا امیر نہیں ہوں‘جمہوریت میں غریب ہی منتخب ہوتا ہے اور یہ جمہوریت کا حسن ہے اور اس وجہ سے جمہوریت کی تعریف کی جا تی ہے ہمارے ہاں درجہ بہ درجہ سب کو سیا ست کے میدان سے کوئے ملا مت میں ایسے دھکیلا گیا ہے کہ بقول فیض یوں کہنے کو جی چاہتا ہے شہر دلبر میں اب با صفا کون ہے دست قاتل کے شا یاں رہا کون ہے! کتب بینی کے شوقین شہریوں کو اچھی طرح یا د ہو گا کہ 1958ء تک ملکی تاریخ کے گیارہ سالوں میں صرف سیاستدان ایک دوسرے کو ملا مت کے کو چے میں گھسیٹتے تھے‘یوں برائیوں کو مشہور کرنے کا شغل مزید طاقت پکڑ نے لگا، جوابی وار کرتے ہوئے مخالفین نے ججوں اور جر نیلوں کے کر دار پرا نگلی اٹھا نا شروع کی 1972ء کے بعد اداروں کی بے توقیری فیشن میں تبدیل ہوئی‘ طرح طرح کی جگتیں رائج ہوئیں، قسم قسم کے طعنے تراشے گئے‘ بات اتنی پھیل گئی کہ الامان والحفیظ‘اب تو صورت حال یہ ہے کہ کسی معزز شہری کی دستار محفوظ نہیں، کسی صاحب عزت کی عزت محفوظ نہیں اور یہ کا م گلی کے لونڈوں، لپاڑوں نے نہیں کیا 1988ء سے 1999ء تک ہمارے قابل احترام سیاستدانوں نے گا لی گلو چ کا جو بازار گرم کیا تھا وہ اب تک ٹھنڈا نہیں ہوا 2013ء سے 2023کے دوران آنیوالے دس سالوں میں سیاستدانوں نے منفی پروپیگنڈے کیلئے نئے نئے طعنے تراش لئے‘ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی سہا را لیا اگر سیا سی قائدین میڈیا کو مثبت اور اچھی باتوں کیلئے استعمال کر تے تو سیاست میں با لغ نظری آجا تی، لیکن ایسا نہ ہو سکا چنا نچہ انتخا بات کا مو قع آتا ہے تو سیا سی کشید گی میں اضا فہ ہو تا ہے یہ کشید گی بڑے بڑے قومی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے الیکشن کمیشن ایک ضا بطہ اخلا ق جا ری کرتا ہے مگرا س پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا انتخا بی اخراجات کی حد مقرر کی جا تی ہے مگر خلا ف ورزی کرنیوالوں کو کھلی چھوٹ ملتی ہے یوں سیا ست یاکوئے ملا مت میں کوئی فرق نہیں رہاکوئی تمیز نہیں رہی۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی