موسمیاتی تبدیلی کا عذاب ابھی ٹلا نہیں 

کیا یہ حقیقت نہیں کہ پچھلے برس جنوری میں سائنسدانوں نے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث 50 فیصد گلیشیر کے پگھلنے کے امکانات کا اشارہ دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اس سے سمندری سطح میں اضافہ ہوگا اور چند برسوں میں دنیا کے بعض بڑے شہر جو سمندر کے قریب واقع ہیں غرقاب ہو جائیں گے‘ پانی کی قلت اور سیلابوں کا بھی خطرہ ہوگا ‘اسی طرح ورلڈ اکنامک فورم نے بھی آئندہ دو برسوں میں اشیا ئے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی لاگت کو تشویش ناک قرار دیا تھا پاکستان گزشتہ برس موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے‘ ماحولیاتی تبدیلی کے بنیادی اسباب میں دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کے سبب گرین ہاﺅس گیسز کے اخراج کی ایک وجہ ٹرانسپورٹ بالخصوص سڑکوں پر چلنے والی ٹریفک بھی ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرتی ماحول کو نقصانات سے بچانے کے واسطے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں‘ الیکٹرک گاڑیوں کو رواج دیا جائے جہاز کے بجائے ریل کی سہولت عام کی جائے ‘سورج کے ذریعے بجلی پیدا کی جائے ‘ماہرین کے مطابق اگر درختوں کی کٹائی پر پابندی نہ لگی تو آئندہ قدرتی آفات کا مزید شدت سے سامنا کرنا پڑے گا گزشتہ برس اگر بھارت سے آسٹریلیا تک ریکارڈ گرمی پڑی تو یونان سے کنیڈا تک جنگلات بھی آگ کی لپیٹ میں رہے‘ سمندری طوفان تباہیاں مچاتے گزرے ‘خشک سالی سے غذائی بحران نے بھی سر اٹھایا‘ امسال سردی کا جو عالم ہے اور سڑکوں پر دھند کاجو راج ہے اس کی بھی گزشتہ نصف صدی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد درج ذیل اہم اور فوری نوعیت کے ایشوز بھی غور طلب ہیں‘منی بجٹ 2024-25 کی آمد آمد ہے۔ لیاقت بلوچ کا اس پر یہ تبصرہ قابل غور ہے کہ اگر اس بجٹ میں بھی آئی ایم ایف شرائط پر عمل درآمد ہوا تو پھر یہ اس ملک کے غریب عوام کی ہڈیوں سے گودا نچوڑنے کے مترادف ہوگا اگر آپ ہونے والے الیکشن کے لئے جو انتخابی مہم چلائی جارہی ہے اس میں سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کی طرف سے جو تقاریر کی جا رہی ہیں ان کا اگر تقابلی جائزہ لیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کے مندرجات میں محض ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی اور کردار کشی کے علاوہ کچھ بھی نہیں‘ بہتر ہوتا اگر ہر سیاسی پارٹی کے رہنما اپنی اپنی پارٹی کا ایک روڈ میپ پیش کرتے جس میں وہ قوم کو یہ بتاتے کہ انہوں نے کیسے اور کتنے عرصے میں ملک کی معشیت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنا ہے ؟کیسے اور کب تک انہوں نے ملک میں ایک منصفانہ ٹیکس سسٹم نافذ کرنا ہے؟ ملک کی خارجہ پالیسی کے خدوخال کیا ہوں گے ؟ملک میں عوام کو مفت تعلیم اور طبی سہولیات فراہم کرنے کے واسطے ان کے پاس کیا پروگرام ہے؟ لوکل گورنمنٹ کو فعال بنانے کے واسطے انہوں نے اب تک کیا ہوم ورک کیا ہے وغیرہ ‘ تو اس سے بھی عوام کی کچھ امید بندھ جاتی مگر اس طرف سیاسی پارٹیاں آہی نہیں رہیں۔