مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر بھارتی جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے 1992ءمیں بابری مسجد کو شہید کرنا نریندرا مودی کی سیاسی پارٹی کا بہت بڑا جرم تھا اور اب اس سانحے کے 34 برس بعد اس شہید مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر اس سے بھی بڑا جرم ہے بھارت کے لیڈروں کے نام نہاد سیکولر ازم کا جنازہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے قیام کے روز سے ہی نکال رہی ہے افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بھی اس گھناﺅنے جرم میں خاموشی اختیار کر کے ایک لحاظ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کاساتھ دیا ہے جہاں تک بھارتی کانگریس پارٹی کا تعلق ہے کہ جو اپنے آپ کو بھارتی سیکولر ازم کا چیمپئن قرار دیتی ہے اسکے رہنماﺅں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں میں اس معاملے میں اگر کوئی فرق ہے تو بس اتنا ہی ہے کہ کانگریس بھارت میں مقیم مسلمانوں کو بغل میں چھری اور منہ میں رام کے مصداق
مٹھائی میں زہر مکس کر کے مارنا چاہتی تھی یا مار رہی ہے جبکہ بی جے پی ان کو ببانگ دہل صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ گاندھی جی بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے بارے میں بغل میں چھری اور منہ میں رام فلسفے کے پرچارک تھے اور میٹھے زہر سے ان کو ختم کرنے کی پالیسی پرکاربند تھے جو کہ انتہا پسند ہندوﺅں کو بالکل پسند نہ تھی اور اسی وجہ سے ان کی ہلاکت انتہا پسند
ہندوﺅں کے ہاتھوں ہوئی تھی کانگریس پارٹی کے اندر پنڈت نہرو کا جو گروپ تھا۔ وہ معتدل سیکولر عناصر پر مشتمل تھا پر ان کا پٹیل نامی وزیر داخلہ سخت متعصب قسم کا ہندو تھا جو کم وبیش اسی قسم کے خیالات کا مالک تھا جو آج نریندرا مودی کے ہیں۔ رام مندر کی تعمیر پر او آئی سی کی ایک پھس پھسی سی مذمتی قرارداد پر ہر مسلمان کو افسوس ہوا‘ اس تنظیم میں شامل اکثر ملک خصوصاً مشرق وسطیٰ کے ممالک کے سربراہ اربوں بلکہ کھربوں میں کھیل رہے ہیں پر ان کی تمام دولت پرتعیش زندگی گزارنے میں لگ رہی ہے اگر وہ اپنے بے پناہ مالی وسائل اپنی عسکری تعلیمی اور سائنسی قوت بڑھانے میں لگاتے تو کیا بھارت یا کسی اور ملک کو مسلم کش یا اسلام دشمن پالیسیوں پر چلنے کی
جرات ہو سکتی تھی کبھی بھی نہیں۔ ملک بھر کے کئی شہروں میں چوری چکاری راہزنی اور ڈکیتیوں کی وارداتوں میں اضافے کی کئی اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں پر اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جب کسی ملک یا کسی معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج اتنی زیادہ بڑھ جائے تو پھر اس صورتحال میں سرمایہ دار کے گریبان میں مفلوک الحال فرد ضرور ہاتھ ڈالتا ہے آج ملک میں زمینی حقائق یہ ہیں کہ کروڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ جو غربت کہ لکیر سے نیچے والی زندگی بسر کر رہے ہیں جن کو کبھی بھی پیٹ بھر کے کھانا نصیب نہیں ہو رہا وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے مٹھی بھر افراد ایک ایسی آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تو ان کے سینے میں اس نظام کے خلاف نفرت کا ایک جذبہ موجزن ہو جاتا ہے جس سے معاشرے میں ایک تفاوت پیدا ہو جاتی ہے۔