کسی پشوری کو پشاور کی یاد ستاتی ہے تو بات کا رخ لا محا لہ پشاور کی عظمت رفتہ کی طر ف موڑ دیتا ہے چترال کے تھری سٹار ہو ٹل کی لا بی میں آصف بھائی کے ساتھ ملا قات میں ایسا ہی ہوا ، آصف آج کل دوبئی میں ہوتے ہیں ‘اسلام آباد میں گھرہونے کے باوجود بچوں کو پشاور میں رکھا ہوا ہے ‘میں نے کہا یہ پشاور سے محبت کا ثبوت ہے وہ بولے ” ادنیٰ سی کوشش “ہے ہم سدا کے پر دیسی ثبوت کب دے سکتے ہیں ‘میں نے کہا پشاور سے باہر ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کسی پشوری سے ملتے تو ملنے والے کو پشاور کا روڑا کہتے اور ایسا ہی لکھتے تھے‘ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے ذکر سے بات کوچہ ادب میں داخل ہوئی‘ خا طر غزنوی کی کتاب ایک کمرہ کا ذکر آیا ، ممتاز عسکری اور استاد بشیر کا ذکر آیا پھر ضیا جعفری سے لیکر فارغ بخا ری ، رضا ہمدانی ، طہٰ خان اور نا صر علی سید تک کئی بڑے بڑے ناموں کا ذکر ہوا یہاں تک کہ جو ن ایلیا اور راحت اندوری بھی زیر بحث آئے‘ آصف صاحب نے علی اویس خیال کی ڈاکو مینٹری شہر کی فصیل اور فصیل کے تاریخی دروازوں کے تفصیلی تعارف کو سرا ہا ‘ گندھارا ہند کو بورڈ اور گندھا را ہند کو اکیڈ یمی کا ذکر خیر ہوا میں نے کہا فصیل شہر اس کا ہارڈ وئیر ہے ‘آصف صاحب بولے آپ ہارڈ وئیر کو محفوظ نہیں کر سکتے تو سوفٹ وئیر کی بات کس طرح کر سکتے ہیں‘ وہ تو نظر آنے والی چیز نہیں ‘میں نے آصف صاحب کو بتا یا کہ پنجاب حکومت گذشتہ 30سال سے لا ہور کی قدیم عمارتوں کو محفوظ کرنے کے منصو بے پر کام کر رہی ہے 30سال میں 10بار حکومتیں بدل گئیں مگر لا ہور کے تاریخی ورثے کی حفاظت کا منصو بہ کسی حکومت کے جانے اور کسی کے آنے سے متا ثر نہیں ہوا ، شاہی قلعہ کا کام مکمل ہوا ہے فصیل شہر کے اندر مسجدوزیر خان اور شاہی حمام کا کام بھی مکمل ہوا ہے‘ فصیل شہر کی اتھارٹی (Walled City Authority) ایک آزاد اور خود مختار اتھارٹی ہے‘ پنجاب کا ہر آنے والا وزیر اعلیٰ اس کے کام میں معاون کا کر دار ادا کر تا ہے مگر پشاور کی فصیل کو یا فصیل شہر کے اندر واقع تاریخی عمارتوں کو ایسی سرپرستی کبھی میسر نہیں آئی‘ آصف بھائی نے میری بات کاٹ کر کہا آئندہ بھی میسر نہیں آئیگی میں نے کہا کیوں ؟ آصف بھائی بولے فصیل شہر کے اندر کی قدیم تعمیرات کو بچوں کے گھروندوں کی حیثیت دی جا تی ہے خود شہر کے لو گوں میں یہ شعور نہیں کہ شہر کی عظمت رفتہ کو کس طرح بحا ل کیا جائے ! میں نے کہا پشاور کا سوفٹ وئیر بھی اس شعور کی نا پختگی کے باعث برباد ہو چکا ہے آصف صاحب نے کہا دمشق اور بغداد میں قصہ کہانیاں سنا نے کےلئے بیروت اور عمان سے قصے سنا نے والے بھاری معاوضہ پربلا ئے جا تے ہیں ہزاروں سامعین سینکڑوں ڈالر کے ٹکٹ خرید کر قصے سنتے ہیں ، پشاور کے ایک مشہور بازار کا نا م قصہ خوانی ہے مگر آج قصہ خوانی کا وہ دستور کدھر
ہے ؟ میں نے اس کو مژدہ سنا یا کہ اسلا م آباد میں جب لو ک ورثے کا میلہ لگتا ہے ، تو میلے میں قصہ خوانی کے سٹال پر لنگی میں ملبوس یا قراقلی ٹو پی زیب سر کئے ایک قصہ خواں گاﺅتکیہ لگا ئے بیٹھا ہوتا ہے اسکے گرد قصے سننے کے شوقین حلقہ بنائے بیٹھتے ہیں اور قصہ سنتے ہوئے اس کو داد دیتے ہیں ‘ آصف بھائی کو پشاور کا بھا ئی چارہ‘ اس کاکھلا ڈھلا ما حول‘ شہر کے باغا ت کی سیر اور رات گئے بازاروں میں گھومنے والوں کی گہما گہمی کا پرانا ما حول بہت یاد آتا ہے ‘1979کے بعد پڑو سی ملک میں خانہ جنگی ہوئی لوگ گھر بار چھوڑ کر پشاور آئے نہ جا نے کس طرح اس شہر بے مثال پر خوف کا سایہ بیٹھ گیا‘ گھر سے با ہر نکلتے ہوئے خو ف آنے لگا ہمارے بچے خوف کی اس فضا میں پلے بڑھے‘ راتوں کو گلیوں میں ہونے والی گہما گہمی مفقود ہو گئی میں نے کہا یہ ایک نا ول کا مو ضوع ہے ایسا نا ول جس پر فلم بھی بن سکتی ہے آصف بھا ئی نے میرے ساتھ اتفاق کیا ‘یوں ہم دونوں نے ایک یخ بستہ صبح کو چترال میں بیٹھ کر پشاور کی عظمت رفتہ کو یا د کیا ۔