نیرنگی سیاست

اس وقت تک یعنی تا دم تحریر ملک کا جو سیاسی منظرنامہ ہے وہ تو یہ دکھا رہا ہے کہ ملک میں ہون ے والے الیکشن میں پنجاب کا پتہ نہیں چل رہا کہ وہاں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کیونکہ اس وقت کسی بھی پارٹی کا وہاں پلڑہ اتنا بھاری نہیں نظر آ رہا کہ وہ تن تنہا ازخود اتنے ووٹ لے سکے کہ مرکز میں اپنی حکومت بنائے‘ لامحالہ اسے کسی دوسری پارٹی یا آ زاد امید واروں کے ووٹ درکارہوں گے اور یہ وہ مرحلہ ہو گا کہ جب ہارس ٹریڈنگ وطن عزیز میں ایک مرتبہ پھر سر اٹھا سکتی ہے‘ پنجاب میں جس پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی وہی مرکز میں اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے گی ‘اس لئے ہرپارٹی تن من دھن کی بازی لگا رہی ہے کہ وہ اس صوبے میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرے ‘سندھ کا دارالحکومت کراچی ماضی قریب تک تو بلا شبہ ایک cosmopolitanشہر کہلاتا تھا ملک بھر سے لوگ یہاں معاش کی تلاش میں آتے تھے اور اس کی معاشی ترقی میں انکی محنت اور مشقت کا بہت بڑا ہاتھ بھی تھا پھر نہ جانے اس کو کس کی نظر لگ گئی اورشہر قائد کا امن عامہ تاراج ہو گیا جن لوگوں نے 1950,1960کا کراچی دیکھا ہے وہ آج کے کراچی کی حالت کو دیکھ کر کف افسوس ملتے ہیں آج شہر قائد کے باسی مختلف سیاسی گروپوں میں تقسیم ہیں‘ سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سیاسی جماعتوں کی مثال چوں چوں کے مربہ جیسی ہے تقریباً تقریباً ہر چھوٹی سیاسی پارٹی کا ان صوبوں میں وجود ہے لہٰذا صوبائی سطح پر وہ سیاسی پارٹی حکومت بنائے گی جو صوبوں میں الیکشن میں کامیاب ہونے والی پارٹیوں کی سب سے زیادہ حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی ‘قصہ کوتاہ اس وقت تک کوئی واضح پوزیشن ابھر کر سامنے نہیں آ رہی کہ ملک میں 8 فروری 2024 کو ہونے والے الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں کی اسمبلیوں میں عددی پوزیشن کیا ہوگی ؟رمضان شریف کا مہینہ چند دنوں میں شروع ہونے والاہے اگر موسم کی یہی حالت رہی تو عین ممکن ہے پہلے پندرہ بیس روزے ٹھنڈے موسم میں شاید گزر جائیں جس چیز کا ہر ضلعی انتظامیہ کو ازحد خیال رکھنا ہوگا اس کا تعلق اشیائے خوردنی کی قیمتوں پر کڑی نظر رکھنے سے ہے‘ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بعض مفاد پرست تاجر مارکیٹ میں ان اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ اس طریقے سے کرتے ہیں کہ جن کی پبلک ڈیمانڈ رمضان شریف کے ماہ میں زیادہ ہوتی ہے کہ پہلے تو ان کو مارکیٹ سے غائب کر کے ان کا ذخیرہ کر لیا جاتا ہے اور پھر روزوں میں جن اشیائے خوردنی کی کھپت زیادہ ہوتی ہے انہیں من مانے ریٹ پر فروخت کر کے بے پناہ منافع کمایا جاتا ہے یہ پولیس کا کام ہے کہ اس قسم کے ذخیرہ اندوزوں کو بے نقاب کرے اور جو اشیا ئے خوردنی انہوں نے ذخیرہ کی ہوں ان کو بحق سرکار ضبط کیا جائے ۔ اس خبر پر یقیناً تمام عالم اسلام کو دکھ ہوا ہوگا کہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں شراب فروخت کرنے کی دکان کھولنے کی اجازت دی جا رہی ہے‘ شراب نوشی سے دنیا میں ہر سال لاکھوں لوگ مختلف اقسام کے عوارض قلب میں مبتلا ہو رہے ہیں ‘میڈیکل سائنس نے بھی ثابت کیا ہے کہ شراب نوشی انسانی صحت کے واسطے بھی بہت مضر ہے اس تناظر میں دیکھا جائے یہ بات ایک عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخرسعودی عرب میں شراب کی دکان کھولنے کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟۔آ رمی چیف کا یہ کہنا بجا ہے کہ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کا مقصد افراتفری پھیلانا ہے اور ایسی خبروں کی تحقیق بہت ضروری ہے ان کا یہ بیان بھی درست ہے کہ پارٹیوں اور اداروں میں سب لوگ اچھے نہیں ہوتے اور یہ کہ سیاست کا محور صرف طاقت ہونا المیہ ہے مجھ سمیت ہر ایک کو اپنے حصے کی شمع جلانا ہے ‘وقت آ گیا ہے کہ اب شوشل میڈیا کو سنسر شپ کے تابع کیا جائے۔ یہ جو وطن عزیز میں 17 خودکش بمبار پہنچنے کا الرٹ جاری ہوا ہے اور بڑے شہروں میں دھماکوں کے خدشے کی خبر گشت کر رہی ہے‘ اس کے پیش نظر تمام سیاسی رہنماوں کو اپنی اپنی الیکشن مہم کے طریقہ کار کو ری وزٹ کر کے الیکٹرانک میڈیا کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے اور جلسوں اور جلوسوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔