قرض پر مبنی معیشت

اچھی خبر آئی ہے کہ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے ذمے دوارب ڈالر کا قرض ایک بار پھر مو خر کر دیا ہے، عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے نیا قرضہ ملنے کی امید ہے معیشت کے ما ہرین کہتے ہیں کہ ملک میں عام انتخا بات کے لئے 49ارب روپے الیکشن کو دیئے گئے ہیں نئے ما لی سال کے بجٹ کی تیاری پر کام شروع ہوا ہے بجٹ بنا نے والوں کے سامنے دو بڑے پہاڑ کھڑے ہیں ایک پہاڑ یہ ہے کہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لئے پاکستانی کرنسی میں دو سوارب روپے درکار ہیں، دوسرا پہاڑ یہ ہے کہ آنے والی حکومت میں اراکین اسمبلی کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے تین سو ارب روپے کی خطیر رقم چاہئے یہ رقم پروٹوکول‘سکیورٹی اور قانونی مراعات کے علا وہ ہے بین لاقوامی ما لیا تی فنڈ کی ایک رپورٹ میں وزیر اعظم انوار الحق کا کڑ کی سر براہی میں قائم نگران حکومت کی معا شی پا لیسیوں پر اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے فنڈ کے ذمہ دار حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ پا لیسیاں جا ری رہیں تو پا کستان آئی ایم ایف کی قسطیں بر وقت ادا کر نے کے قابل ہو جا ئے گا انگریزی میں ایسی معیشت کو ڈیتھ ریڈن یعنی قرض تلے دبی ہوئی معیشت کہتے ہیں اور یہ کسی بھی ملک یا قوم کے لئے مفید نہیں ہوتی ہمارا بنیا دی مسئلہ یہ ہے کہ اکثر ہمارے منصو بہ ساز اور فیصلہ ساز وہ لو گ ہو تے ہیں جن کو عوامی جذ بات اور احسا سات کا علم نہیں ہوتا ان کے منصو بے اور فیصلے ملکی سالمیت اور قومی یک جہتی کے تقا ضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو تے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جنا ح 11ستمبر 1948کے دن بلو چستان سے کراچی پہنچے تو ہوائی اڈے سے گورنر جنرل ہاﺅس تک ایک ہی موٹر میں آئے ان کے آگے یا پیچھے پرو ٹو کول کی کوئی گاڑی نہیں تھی ‘یہ ان کا طرز حکمرانی تھا وہ قومی دولت کو فضول پرو ٹو کول پر خر چ کرنے کو قوم سے غداری سمجھتے تھے ان کی وفات کے بعد پروٹوکول کلچر آیا پہلے پروٹو کول کی دو گا ڑیاں لگائی گئیں رفتہ رفتہ ان کی تعداد بڑھتی رہی یہاں تک کہ اب وی آئی پی ایک گاڑی میں ہوتا ہے پروٹوکول کی 20گاڑیاں آگے پیچھے ہوتی ہیں ائیر پورٹ سے گھر تک وی آئی پی کی ایک گاڑی پر ایک ہزار ڈالر خر چہ آتا ہے تو پروٹو کول کی گاڑیوں پر 20ہزار ڈالر کا قومی سرما یہ فضول خر چ ہوتا ہے قوم کے جذ بات اور احساسات یہ ہیں کہ پا کستان کا ہر وی آئی پی عوام کی طرح سادہ زند گی گذار ے پرو ٹو کول، سکیو ٹی اور مہنگے طرز زندگی کو خیر باد کہا جا ئے قومی احسا سات یہ ہیں کہ اراکین اسمبلی میں ہر ما لی سال کے اندر8کروڑ روپے یا 10کروڑ روپے فی کس تقسیم کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے سابق صدر جنرل ضیا ءالحق نے غیر جماعتی انتخا بات کے بعد اراکین اسمبلی میں نقد پیسے بانٹنے کا سلسلہ مخصوص حا لا ت میں شروع کیا تھا اگر ان کی زند گی مہلت دیتی تو وہ خود یہ سلسلہ بند کردیتے اس طرح پو لیس کسٹمز اور ایف آئی اے کی نا کہ بند ی پر اراکین اسمبلی کی گاڑیوں کو چیکنگ سے مستثنی اور مبرا قرار دینے کا سلسلہ بھی 1985 میں شروع ہوا 1970 کے عشرے تک ایسا نہیں ہوتا تھا، رکن اسمبلی کو تنخوا، سفر خرچ، ٹیلیفون اور علا ج کے لئے قانونی مرا عات ملتی تھیں، رکن اسمبلی سرکاری دفاتر کے چکر نہیں لگا تا تھا وہ قانون سازی کر تا تھا اسمبلی کے فلو ر پر اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی کرتا تھا اور قائمہ کمیٹیوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کر تا تھا پا کستان کو قرض کے بو جھ سے آزاد کرنے کے لئے وی آئی پی کا پروٹو کول ختم کرنا چاہئے اور اراکین اسمبلی کو ملنے والے فنڈ کا خا تمہ کیا جائے نیز اراکین اسمبلی کی گاڑیوں کی با قاعدہ چیکنگ ہونی چاہئے۔