الیکشن منشور:بلند بانگ دعوے 

 محکمہ موسمیات نے درست کہا تھا کہ امسال غضب کا پالا پڑے گا جس سے بچے بوڑھے نمونیہ کا شکارہو سکتے ہیں‘ جاڑا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا اور وطن عزیز میں نمونیا اور فلو نے تباہی برپا کر رکھی ہے۔آج کل الیکشن لڑنے والی ہر سیاسی پارٹی نے الیکشن منشور کا اعلان کر دیا ہے‘ ان پر ایک تنقیدی نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں اس قسم کے ترقیاتی منصوبوں کو لانچ کرنے کے وعدے کئے گئے ہیں کہ جن پر عمل درآمد کیلئے اتنی بڑی رقم درکار ہو گی جو شاید کوئی بھی حکومت برداشت نہ کر سکے‘ اس لئے ضروری ہے کہ اس معاملے میں ہمارے سیاست دان ذرا حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کریں تاکہ کل کلاں ان پر عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں ان کو قوم کے سامنے سبکی اور ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔وزیر اطلاعات نے بالکل بجا فرمایاہے کہ اظہار رائے کی آزادی لا محدود نہیں ہے‘ تہذیب کے دائرے میں تنقید ہونی چاہیے‘ سوشل میڈیا پر بعض اداروں کے بارے میں جو کہا جا رہا ہے وہ کردار کشی اور تضحیک کے زمرے میں آتا ہے اور کسی طور بھی تنقید کے زمرے میں نہیں آ تا۔ایران کی یہ مہربانی کہ اس نے گیس منصوبے میں ڈیڈ لائن کی ستمبر 2024تک توسیع کر دی ہے اور ساتھ ہی ساتھ امریکی پابندیوں کے اثرات سے محفوظ رہنے اور منصوبے کی تکمیل کے لئے اپنے قانونی اور تکنیکی ماہرین بھیجنے کی پیشکش بھی کر دی ہے پر اب گیند پاکستان کی کورٹ میں ہے اگرہم نے مثبت رد عمل کا مظاہرہ نہ کیا تو ایران ہمارے خلاف عالمی عدالت انصاف سے 18ارب ڈالرکے ہرجانے کا دعویٰ کر سکتا ہے ہمیں اب امسال ستمبر تک اس منصوبے پر سنجیدگی دکھانا ہو گی ایرانی وزیر خارجہ کا یہ بیان خوش آئندہے کہ ہم دشمنوں کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے خطے میں دوستی ‘امن اور سکیورٹی کو ہدف بنائیں‘ اچھی ہمسائیگی کے ذریعے ہی سلامتی کا حصول ممکن ہے‘ اگر اسی قسم کی خیر سگالی کا مظاہرہ افغانستان بھی کرے اور پاکستان ایران اور افغانستان ایک سیاسی پیج پر آ جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس خطے میں امن و آشتی کا ایک دور شروع نہ ہو سکے جو ان تینوں ممالک کے عوام کی زندگیوں میں ایک خوشگوار معاشی تبدیلی لا سکتا ہے ‘ایران اور افغانستان دونوں ممالک ہمارے پڑوسی ممالک ہیں وہ ہمارے اتنے قریب ہیں کہ اگر ان کو چھینک آ جائے تو زکام ہمیں لگ جاتا ہے ‘ایران پاکستان کے درمیان900 کلومیٹر طویل سرحد ہے جس کے دونوں طرف بلوچ قبائل آ باد ہیں‘ ایرانی سرحد سے بلوچستان کا جو ملحقہ صوبہ ہے اس کا نام پنجگور ہے‘ اس کی 90فیصدآبادی کا ذریعہ معاش پاکستان اور ایران کے درمیان غیر رسمی تجارت پر ہے ‘اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورینڈ لائن کی باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان تک جو لمبائی ہے وہ تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر ہے‘ اگر ان تینوں ممالک میںہم خیال قیادت جو سیاسی اور معاشی پالیسیوں کے بارے میں ایک ہی پیج پرہوں تو یہ امر ان تینوں ممالک کے عوام کے معاشی مسائل کے حل کے واسطے کافی حد تک ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔