بیسویں صدی کے نابغے

ہر دور میں زندگی کے ہر شعبے میں نابغے پیدا ہوتے رہے ہیں۔ کیوں نہ گزشتہ صدی میں پیدا ہونے والے چند نابغوں کا آج اس کالم کی ابتدائی سطور میں ذکر ہو جائے۔ آئیے سب سے پہلے سیاسی میدان میں پیدا ہوئے والی چند شخصیات کے ذکر سے ہی اس کالم کا آ غاز کر لیں جن شخصیات کا ہم ذیل کی سطور میں نام لکھنے جا رہے ہیں انہوں نے اپنے کام اور پالیسی سے نہ صرف اپنے ملک پر اچھے گہرے اثرات چھوڑے عالمی سطح پر بھی ان سے کئی ممالک متاثر ہوئے ہیں برطانیہ کے سر ونسٹن چرچل دوسری جنگ عظیم کے دوران دنیائے سیاست میں بطور مدبر ابھرے اور یہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کا نتیجہ تھا کہ یورپی اتحادی ممالک بشمول امریکہ نے ایک طویل جنگ کے بعد جرمنی کے ہٹلر کو شکست فاش دی اور دنیا کو اس فتنے سے آزاد کرایا اسی جنگ میں امریکہ کے صدر روزویلٹ فرانس کے رہنما جنرل چارلس ڈیگال اور روس کے لیڈر سٹالن بھی عالمی سیاست پر ابھرے سابقہ یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو 
نے بھی اسی دور میں ایک دور اندیش مد بر کی حیثیت سے کافی نام کمایا ترکی کے کمال اتاترک‘ انڈونیشیا کے سوئیکارنو‘ مصر کے جمال عبدالناصر‘ برصغیر پاک و ہند کے قائد اعظم محمد علی جناح‘ مہاتما گاندھی‘ پنڈت نہرو‘ سعودی عرب کے شاہ فیصل‘ جنوبی افریقہ کے نیلسن مینڈیلا‘ سری لنکا کے بندرانائکے‘ تنزانیہ کے جولیس نیاراے‘ لیبیا کے کرنل قذافی اردن کے شاہ حسین‘ سپین کے جنرل فرانکو‘ کیوبا کے فیڈل کاسترو‘ بولیویا کے شی گویرا‘ چین کے ماو¿ زے تنگ اور چو این لائی‘ شمالی ویت نام کے ہون چن مین اور کانگو کے 
پیٹرک لومبابہ کے نام لئے بغیر فہرست نامکمل رہے گی۔ کھیلوں کے میدان میں اگر سکواش کا ذکر کیا جائے گا تو وطن عزیز کے ہاشم خان نے اس صدی میں سکواش میں جو مقام حاصل کیا وہ شاید ہی کوئی دوسرا سکواش کا کھلاڑی پا سکے‘ ہاکی میں بھارت کے دھیان چند‘ کرکٹ میں ڈان بریڈمین اور فٹبال میں میرا ڈونا جیسے کھلاڑی اس صدی میں پیدا ہوئے جن کا ثانی پھر نہیں آیا‘ سائنسدانوں میں آئن سٹائن کے پائے کا دوسرا سائنسدان ناپید ہے‘ فلم اداکاری میں ہالی وڈ کے سر آ لیور لارنس اور بالی وڈ کے دلیپ کمار جیسے نابغے ان کے جانے کے بعد پھر نہ آئے‘ گلوکاری میں استاد بڑے غلام علی خان‘ کندن لال سہگل‘ محمد رفیع‘ نور جہان اور لتا منگیشکر کے معیار کے گلوگار پھر نظر نہ آئے۔ ان ابتدائی کلمات کے بعد چند تازہ ترین امور کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا وطن عزیز میں تواتر سے دہشتگرد اپنا کام جاری رکھے 
ہوئے ہیں جو تشویشناک اس لئے ہے کہ اگر یہ بند نہ ہوئے تو وقت مقررہ پر الیکشن کے انعقاد میں خلل پڑ سکتا ہے نہ ہی سیاست دانوں نے اس خدشے کو محسوس کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ جلسے جلوسوں کی روش کو ترک کر کے عوام سے صرف الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے ہی مخاطب ہوں تاکہ ان کی جان کسی بھی ممکنہ حملے کے خطرے سے محفوظ رہے‘ آخر دنیا کے اکثر ممالک میں الیکشن مہم کیا ٹیلیویژن پر آ کر الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہو کر مناظرے کی صورت میں نہیں کرتے‘ تا دم تحریر تو یہ لگ رہا ہے کہ جماعت اسلامی بظاہر ملک میں ہو نیوالا الیکشن تن تنہا لڑ رہی ہے‘ اگر ہونیوالے الیکشن میں آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد منتخب ہو جاتی ہے تو خدشہ یہ ہے کہ اپنے کسی امیدوار کو وزیر اعظم کے سنگھاسن پر براجمان کرنے کے واسطے کوئی بھی سیاسی پارٹی قومی اسمبلی میں اپنی عدوی قوت زیادہ کرنے کے واسطے ان کو خریدنے کی کوشش کر سکتی ہے۔