وطن عزیز میں باران رحمت

انجام کار قدرت دو تین روز قبل وطن عزیز کے کئی علاقوں پر مہربان ہو گئی جب اس نے باران رحمت بھیج کر سردی کی خشک سالی ختم کر دی جس پر لوگوں نے شکر کا کلمہ پڑھا کیونکہ اگرایک طرف زراعت کو پانی کی سخت ضرورت تھی تو دوسری جانب خشک سردی سے فضا بھی سخت آ لودہ ہو گئی تھی جس سے بچے بوڑھے نمونیہ اور فلو کی وباءکا سخت شکار تھے سردی کی موجودہ لہر نے البتہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالا اور ان کی الیکشن مہم کی گرما گرمی میں کوئی نرمی دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ ان کی سرگرمیوں میں تیزی نظر آ رہی ہے ۔ پی پی پی اور نواز لیگ کے لیڈر ایک دوسرے کے لتے لینے میں پیش پیش ہیں ‘پی ٹی آئی کے اکثر لیڈر مختلف مقدمات میں ہونے کی وجہ سے عدالتوں کی پیشیوں میں سرگردان ہیں دیگر سیاسی پارٹیوں کے زعماءبشمول آزاد امیدواروں نے low profile رکھا ہوا ہے اور انہوں نے سر دست اپنے کارڈ اپنے سینوں کے ساتھ لگا کرچھپا رکھے ہیں جن کو وہ اس وقت آشکارا کریں گے جب الیکشن کے بعد وزارت عظمیٰ کے لئے سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے امیدواروں کے ناموں کا قومی اسمبلی کے فلور پر اعلان کریں گی‘ اس لئے سیاسی مبصرین کا یہ کہنا وزن رکھتا ہے کہ پارلیمانی نظام ان ممالک میں ہی پنپ سکتا ہے کہ جہاں صرف دو یا زیادہ سے زیادہ تین سیاسی جماعتیں ہوں اور ہمارے ملک کی طرح جہاں سیاسی پارٹیوں کا چوں چوں کا مربہ نہ ہو جس ملک میں اچھی سیاسی روایات کا فقدان ہو گا وہاں آزاد امیدواروں کی بھرمار ہو گی۔ آزاد امیدواروں کو آپ دو کٹیگریز میں تقسیم کر سکتے ہیں ایک تو وہ ہیں کہ جو فیلڈ میں موجود کسی بھی سیاسی پارٹی کے منشور سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کو اس بات کا بھی یقین ہوتا ہے کہ وہ تن تنہا کسی بھی سیاسی پارٹی کی بیساکھی کے بغیر الیکشن جیت سکتے ہیں‘ دوسری کٹیگری میں وہ افراد آ تے ہیں کہ جو سیاسی طور پر حد درجہ خرانٹ ہوتے ہیں ‘وہ جانتے ہیں کہ ایک مرتبہ بطور آزاد امیدوار الیکشن جیت کر وہ اگر اسمبلی کے ممبر بن گئے تو پھر ان کے مزے ہی مزے ہیں‘ حکومت وقت اسمبلی میں اپنا ہر قسم کا بل پاس کروانے میں ان کی حمایت حاصل کرنے کی محتاج ہو گی اور وہ ارباب اقتدار کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر انہیں خوب بلیک میل کر کے مالی اور سیاسی مفادات حاصل کیا کرینگے اس کٹیگری میں شامل آزاد امید وار ہی ہارس ٹریڈنگ کے گھناونے کام کر فروغ دیتے ہیں۔چین نے پاکستان کےلئے دو ارب ڈالر کا جو قرضہ رول اوور کیا ہے اس پر بغلیں بجانے کے بجائے اس ملک کے ارباب بست و کشاد کا یہ سوچنا ضروری ہے کہ کس طرح اس ملک کی معیشت کو بیرونی قرضوں کی لعنت سے چھٹکارا دلایا جائے ۔جس رفتار سے پٹرول بجلی ایل پی جی اور دیگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تواتر سے اضافہ ہو رہا ہے ان کی وجہ سے الیکشن کے بعد جس پارٹی کی بھی حکومت وفاق اور صوبوں میں بنے گی وہ اس کے لئے پھولوں کی سیج کے بجائے کانٹوں کا بستر ہو گی اسے مالی بحران سمیت دیگر کئی اہم چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بھارت میں بر سر اقتدار جنتا پارٹی کی حکومت بڑے منظم طریقے سے ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کر رہی ہے اگلے روز بھارت کی ایک اور مسجد جو گیان والی مسجد کے نام سے مشہور ہے میں سرکاری طور پر ہندﺅوں کو مورتی رکھ کر پوجا کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ فیصلہ کہ مسلح اقدام صرف ریاست کا استحقاق ہے اور خودکش حملے شرعیت کے منافی ہیں ‘ایک خوش آئند پیش رفت ہے ‘احتجاج کے شرعی طریقے سے متعلق تفصیلی ضابطہ اخلاق کی منظوری بھی اس کونسل نے دے دی ہے پر اس ضمن میں تمام سیاسی بشمول مذہبی پارٹیوں کے رہنماﺅں کو مل بیٹھ کر احتجاج کرنے کا ایک شائستہ طریقہ کار وضع کرنا ضروری ہے ایک سادہ طریقہ تو یہ ہے کہ ملک کے ہر شہر میں کسی کھلی جگہ پبلک پارک وغیرہ کا متفقہ طور پر انتخاب کر لیا جائے اور اگر کسی فرد یا پارٹی کو کسی بھی معاملے میں اپنا احتجاج رجسٹرڈ کرانا ہو تو شہر کے ڈپٹی کمشنر کو پیشگی اطلاع کے بعد وہاں وہ جمع ہو کر اپنی تقاریر یا قراد دادوں کے ذریعے اپنا احتجاج پر امن طریقے سے کریں‘ اس طریقے سے دہشت گردوں کو یہ موقع نہ مل سکے گا کہ وہ ان کے خلاف کوئی تخریبی کاروائی کر سکیں اور ارباب اقتدار تک ان کا احتجاج بھی احسن طریقے سے پہنچ سکے گا اور نہ ہی خلقت خدا کے روزمرہ معمولات زندگی میں ان کے جلوسوں سے کوئی خلل پڑے گا ۔وقت آ گیا ہے کہ ہمارے تمام سیاسی قائدین انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کریں اور اپنے خیالات عوام تک پہنچانے کے واسطے ٹیلی ویژن سکرین کا زیادہ سے زیادہ استعمال عمل میں لائیں اس سے ان کی زیادہ سے زیادہ عوام تک رسائی ہو گی اور ان کا جلسوں اور جلوسوں پر جو بے پناہ پیسہ خرچ آتا ہے وہ بھی بچ جائے گا اور وہ ممکنہ دہشت گردی کے عذاب کا نشانہ بننے سے بھی بچے رہیں گے ۔