عام انتخابات اورسیاستدانوں کی ذمہ داری

آج کے کالم کا آغاز علم و حکمت کے خزانے سے بھری ہوئی کتاب نحج البلاغہ میں درج اس پر مغز کلام سے کر رہے ہیں کہ”اللہ کا ایک فرشتہ ہر روز یہ ندا کرتا ہے کہ موت کے لئے اولاد پیدا کرو برباد ہونے کے لئے جمع کرو اور تباہ ہونے کے لئے عمارتیں کھڑی کرو“اب آتے ہیںبعض اہم مسائل کی طرف ۔ اس وقت جب کہ ملک کی تمام خفیہ ایجنسیوں نے یہ انکشاف کر دیا ہے کہ موجودہ الیکشن مہم کے دوران دہشت گردی ہو سکتی ہے تو کیا سیاسی جماعتوں کے قائدین کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ جوش کے بجاے ہوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اپنی الیکشن مہم کے طریقہ کار کو ری وزٹ کریں اور اپنی سیاسی سرگرمیاں صرف اور صرف میڈیا تک محدود کر دیں جس کے ذریعے وہ زیادہ سے زیادہ عوام تک محفوظ رستے سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں دنیا بھر کے کئی جمہوری ممالک میں الیکشن کی مہمات اگر ٹیلی وژن کے ذریعے چلائی جا سکتی ہیں تو اپنے ہاں آ خر ایسا کیوں نہیں کیا جا سکتا اس ضمن میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ایک گول میز کانفرنس بلا کر از خود فیصلہ کرناہو گا کیونکہ یہ بات یکساں طور پر ان سب کے مفاد میں ہے کہ اب سے لے کر آخر تک ملک میں الیکشن مہم اور پھر الیکشن بھی بغیر کسی شوروغل اور شر کے اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائیں ایک اخباری خبر سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ اگر قومی اسمبلی میں آزاد امیدواروں کی اچھی خاصی تعداد ملک میںہونے والے الیکشن میں منتخب ہو جاتی ہے تو ان میں سے کوئی بھی فرد وزیر اعظم کے منصب کے واسطے الیکشن لڑ سکتا ہے‘ اس ضمن میں اگر ان افراد کے ناموں پر تنقیدی نظر ڈالی جائے کہ جو ملک کے مختلف علاقوں سے قومی اسمبلی کا الیکشن بطور آزاد امید وار لڑ رہے ہیں تو ان میں بعض افراد یقینا ایسے ہیں کہ جو ماضی میں یا تو قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں یا پھر سینیٹر وغیرہ اور جن کا سیاسی ٹریک ریکارڈ بھی بہت اچھا تھا اورہو نے والے الیکشن میں ان کی کامیابی بھی یقینی نظر آ رہی ہے اور اگر اس دفعہ قومی اسمبلی میں آزاد امیدوار زیادہ تعداد میں منتخب ہو گئے تو ان میں سے کوئی بھی بطور وزیر اعظم منتخب ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے کئی شہروں کے کیفوں میں کم عمر طلباءکو شیشہ جیسی ممنوعہ منشیات فروخت کی جا رہی ہےں اور دیکھنے میں آیا ہے کہ طلبہ سکول جانے کے بجاے شیشہ کیفیز میں پہنچ جاتے ہیں ‘اس ضمن میں اگر ایک طرف والدین اپنے بچوں کی ننقل و حرکت پر کڑی نظر نہیں رکھ رہے تو دوسری جانب تعلیمی اداروں کے اساتذہ کرام بھی غفلت برت رہے ہیں‘ شیشہ بھی ہیروئن کی طرح ایک ایسا نشہ اور پاوڈر ہے کہ جو بھی ایک مرتبہ اس کا عادی ہو گیا وہ دنیا کے تمام کاموں سے فارغ ہو جاتا ہے اس کی پھر ہڈیوں میں درد رہتا ہے اور جب تک وہ پھر اس کا کش نہ لگا لے وہ بے چین رہتا ہے اور اس طرح وہ اس علت کا عادی ہو کر معاشرے میں تن تنہا رہ جاتا ہے ‘شنید یہ ہے کہ شیشہ آٹھویں 9ویں اور دسویں کلاس کے بچوں کو فروخت کیا جاتا ہے اس ضمن میں ضلعی سطح پر ڈپٹی کمشنر مالاکنڈ نے ضابطہ فوجداری کے تحت ای سگریٹ کی فروخت پر جو پابندی لگائی ہے وہ قابل تعریف ہے ‘اس قسم کا اقدام صوبائی اور ملکی سطح پر لینا ضروری ہے کئی ممالک میں 16 برس سے کم عمر کے بچوں پر سگریٹ فروخت کرنا جرم ہے اور کوئی فرد بھی پبلک پارکس یا دفاتر یا تعلیمی اداروں کے اندر یا آ س پاس سگریٹ نہیں بیچ سکتا ہے اور نہ ہی استعمال کر سکتا ہے اسی قسم کے سخت اقدامات اگر وفاقی اور صوبائی سطح پر نہیں اٹھائے جائیں گے تو یہ پھر ملک کی جوان نسل کی صحت سے کھیلنے کے مترادف ہو گا ۔یہ امر حد درجہ تشویش ناک ہے کہ افغانستان سے پاکستان میں دراندازی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اب تک اسے روکنے کے لئے کابل حکومت نے محض زبانی جمع خرچی کے علاہ کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا افغانستان کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری نہیں آرہی۔