شمشیر و سناں اول طاو¿س و رباب آخر 

 1960 ءکے عشرے میں اسرائیل اور مصر کے درمیان جو جنگ ہوئی تھی اس کے اختتام کے بعد اس جنگ پر رینڈولف چرچل نے The six day warکے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے کہ کسی بھی ملک کے خلاف جنگ کی صورت میں اسرائیل چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر سویلن آ بادی سے 72ہزار افراد کو اپنی فوج کی معاونت کے لئے میدان جنگ میں اتار سکتا ہے اور اس مقصد کے لئے اسرائیلی حکام نے اپنی سویلین آبادی کے افراد کو ان کی عمر کے مطابق فوجی تربیت کا ایک جامع پروگرام شروع کر رکھا ہے ‘کیا اسی قسم کی کوئی جنگی حکمت عملی اور تیاری آپ کو مشرق وسطیٰ کے کسی اور ملک میں نظر آتی ہے حالانکہ عرب ممالک کے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں ‘آج یورپ کے تمام بڑے شہروں میں جو قیمتی ترین پراپرٹی ہے وہ عرب شہزادوں نے خرید رکھی ہے‘ان کو خیال تک نہیں آرہا کہ وہ اپنے ملک کی عسکری قوت کو ناقابل تسخیر بنا نے کے واسطے کیا کیا اقدامات لیں‘ اقبال تو کافی پہلے یہ کہہ گئے ہیں ۔
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیرو سناں اول طاﺅس و رباب آ خر 
پر اس شعر پر بجائے اس کے کہ عرب ممالک عمل پیرا ہوتے اغیار نے عمل درآمد شروع کر دیا ہے‘ اب اگر ہم نے طاﺅس و رباب کو شمشیر و سناں پر تر جیح دینا شروع کر دی ہے تو اغیار سے کیا گلہ؟
ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد ملکی اور عالمی تازہ ترین امور کا ایک احاطہ کرنا بے جا نہ ہوگا۔
محکمہ موسیمات نے ماہ رواں سے ملک میں شدید گرمی پڑنے کی پیش گوئی کی ہے‘ لگتا ہے کہ جس طرح اس ملک کی سیاست انتہا پسندی کا شکار ہے بالکل اسی طرح ملک کا موسم بھی اسی ڈگر پر چل کھڑا ہوا ہے‘ پہلے وطن عزیز کے باسیوں نے سخت سردی کا سامنا کیا اور اب سخت گرمی لگتا ہے ان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے‘ اب کوئی جائے بھی تو کدھر جائے۔ دھن دولت والے تو چلو ہل سٹیشنز چلے جائیں گے یا یورپ کا چکر لگا لیں گے۔ سردی میں گیس اور بجلی کے ہیٹرز کے استعمال پر بھاری بھر کم گیس اور بجلی کے بلوں نے غریب عوام کی کمر توڑی تھی تو اب گرمی میں ائر کنڈیشنرز اور پنکھوں کے استعمال کے نتیجے میں جو بجلی کے بل آئیںگے‘ وہ رہی سہی کسر بھی نکال دیں گے ۔اب سولر اور ونڈ انرجی کے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں ‘خدا ہی جانے کتنا وقت لگے کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ۔یہ پاکستان کی عمدہ سفارت کاری کا نتیجہ ہے کہ ناروے نے پاکستان کو قومی خطرے کی فہرست سے نکال دیا ہے۔خواجہ آصف صاحب نے یہ کہہ کر بڑے پتے کی بات کی ہے کہ انکم ٹیکس کے آدھے کیسز بھی حل ہو جائیں تو آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے گی‘ یہ بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ اگر انکم ٹیکس لگانے والے محکمہ نے ٹیکس لگاتے وقت قانون کو فالو نہیں کیا اور شہریوں کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت جا کر ان سے ہونے والی ناانصافی کا ازالہ کرائیں۔یہ امر خوش آئند ہے کہ چین سولر سسٹم کے تمام آلات کے کارخانے پاکستان میں لگانے والا ہے جس سے اس ملک کے عام آدمی کو جب سستے دام پر سولر سسٹم کی سہولت ملے گی تو اس کی بجلی کے بھاری بھر کم بلوں سے جان چھوٹے گی۔