مخلوط حکومت کی مجبوریاں 

پارلیمانی جمہوریت میں حکومتی معاملات میں ضرور رخنہ پڑتا ہے اگر اسمبلی میں کسی ایک سیاسی جماعت کی اکثریت نہ ہو اور وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کو مخلوط حکومت چلانے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے اراکین کی فراہم کردہ بیساکھیوں کی ضرورت پڑے‘ہمارے سیاسی کلچر میں مخلوط حکومت میں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو اکثر مخلوط حکومت میں شامل پارٹیوں کی سیاسی بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ظاہر ہے وہ اپنے منشور پر کما حقہ عمل درآمد نہیں کر پاتیں‘ لگ یہ رہا ہے کہ ملک میں حالیہ جنرل الیکشن کے نتائج کی روشنی میں جو حکومتیں مرکز اور صوبوں میں بر سر اقتدار آئیہیں ان کو شاید کھل کر کام کرنے کا موقع نہ مل سکے جو پھر اس ملک کے عوام کی واقعی بد قسمتی ہو گی ‘تجربہ یہ بتاتا ہے کہ مندرجہ بالا حالات میں صوبوں اور مرکز میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کی تقرری میں بھی صوبوں اور مرکز میں چپقلش رہتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وزرائے اعلیٰ اپنی پسند کے افسران مناصب پر لگانا چاہتے ہیں جب کہ وفاقی حکومت اپنے منظور نظر افراد کو ان عہدوں پر تعینات کرنا چاہتی ہے کیونکہ انجام کار ان کی پالیسیوں پر عمل درآمد تو انہیں دو افسران نے کرنا ہوتا ہے ‘اگر آپ اس ملک کی ماضی قریب کی پارلیمانی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس ملک میں دو یا غالباً تین مرتبہ ایسی حکومتیں بھی بنی تھیں جن کو اسمبلی میں دو تہائی کی اکثریت حاصل تھی ان کے نام گنوا نے کی ضرورت نہیں کہ لوگ ان کو اچھی طرح سے جانتے ہیں یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اپنی بھاری اکثریت کا فائدہ نہ اٹھایا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ایسی قانون سازی نہ کی کہ جس سے ملک کے عام آ دمی کو صحیح معنوں میں معاشی طور پر کوئی ہڑا ٹھوس ریلیف ملتا اور ان کی ان مافیاز سے جان چھوٹ جاتی جو ان کا کئی برسوں سے معاشی استحصال کر رہے ہیں۔آئیے اب آپ کو یوٹوپیا(utopia )نامی کتاب کے بارے میں کچھ بتائیں جس کا خالق سر تھامس مور تھا سفرنامے کی شکل میں لکھی گئی تھی ایک خیالی جزیرے کا ذکر کرتے لکھتا ہے کہ وہاں کے رہنے والے سونے موتی اور جواہرات سے نفرت کرتے ہیں وہ نہ تو کچھ خریدے ہیں نہ فروخت کرتے ہیں بلکہ قدرت جو ان کو مفت دیتی ہے اس پر قناعت کرتے ہیں ان کی زندگی بالکل آزاد ہے وہاں نہ کوئی بادشاہ ہے نہ آقا وہ مشترکہ طور پر ایک ساتھ رہتے ہیں چنانچہ ہر عمارت میں چھ سو افراد سکونت پذیر ہیں دراصل یوٹوپیا پرتگال کے ایک فرضی سیاح کا فرضی سفر نامہ ہے‘ اس سیاح کا نام رافیل کوڈے تھا اس نے کئی غیر معروف علاقوں کی سیر کی تھی ‘ اس کی جب تھامس مور سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ اسے ایک ایسے چزیرے کے حالات بتاتا ہے کہ جہاں لوگ اشتراکی نظریات کے مطابق رہ رہے ہوتے ہیں اس جزیرے کا نام یوٹوپیا(خیالی) ہے ‘سر تھامس مور اسے بغور سنتا ہے اور قلمبند کر لیتا ہے رافیل اپنی سیاحت کے دوران کچھ عرصے برطانیہ میں بھی رہ چکا تھا اور وہاں کے اس وقت کے ظالمانہ قوانین سے بھی واقف تھا وہ ان کی بھی نشان دہی کرتا ہے اس زمانے میں چوری کی سزا موت تھی پھر بھی چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا تھا رافیل کہتا ہے کہ پھانسی سے چوروں کی تعداد نہیں گھٹ سکتی البتہ حاجت مندوں کی معاش کا بندوبست کر دیا جائے اور انہیں روزگار مل جائے تو چوریاں خود بخود کم ہو جائیں‘ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تم کسی بدنصیب کو پہلے تو چوری کرنے پر مجبور کرو اور پھر اسے پھانسی دے دو۔
‘رافیل کی روایت کے مطابق یوٹوپیا کا جزیرہ جنوبی امریکہ کے نزدیک واقع ہے یوٹوپیا کی ریاست ایک جمہوری وفاق ہے جس میں ملک کے تمام اضلاح کو مساوی حقوق اور اختیار حاصلِ ہیں ان کے درمیاں 24میل کا فاصلہ ہے ہر ضلع میں چھ ہزار گھرانے اور اتنے ہی کھیت ہیں ہر گھرانے میں ایک مکھیا ہوتا ہے جس کو گھرانے کے افراد سال بہ سال چنتے ہیںہر شخص کو زراعت کے علاوہ ایک ہنر سیکھنا پڑتا ہے تندرست مرد اور عورت چھ گھنٹے کام کرتے ہیں البتہ بوڑھے‘ بچے ‘بیمار اور علمی تحقیق کرنے والے اس فرض سے بری الذمہ ہیں۔