سب سے بھاری گناہ وہ ہے جس کا مرتکب ہونے والا سبق سمجھے۔ دنیا ایک دوسری منزل کے لئے پیدا کی گئی ہے نہ اس دنیا میں دوام کے لئے۔ حکومت لوگوں کیلئے آزمائش کا میدان ہے ۔کسی بندے کے لئے مناسب نہیں کہ وہ دو چیزوں پر بھروسہ کرے‘ ایک صحت اور دوسری دولت‘ کیونکہ ابھی تم کسی کو تندرست دیکھ رہے تھے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے بیمار پڑ جاتا ہے اور ابھی تم اسے دولت منددیکھ رہے تھے کہ وہ فقیر و نادار ہو جاتا ہے ‘ وہ عمر کہ جس کے بعد خداآدمی کے عذر کو قبول نہیں کرتا،ساٹھ برس کی ہے۔ یہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے۔ جب تم کو تھوڑی بہت نعمتیں حاصل ہوں تو نا شکری سے انہیں اپنے تک پہنچنے سے پہلے بھگا نہ دو ۔جسے اس کے اعمال پیچھے ھٹا دیں اسے حسب و نسب آ گے نہیں بڑھا سکتا ۔ مرض میں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے پھرتے رہو۔ بھوکے شریف اور پیٹ بھرے کمینے کے حملے سے ڈدتے رہو جب تک تمہارے نصیب یاور ہیں تمارے عیب ڈھکے ہوئے ہیں۔ زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے ۔ دوستوں کو کھو دینا غریب الوطنی ہے ۔ جب عقل بڑھتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہیں۔ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گاکہ جس میں وہی مقرب ہوگا جو لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا ہو اور وہی خوش مزاج سمجھا جائے گا جو فاسق و فاجر ہواور انصاف پسند کو کمزور اور ناتواں سمجھا جائے گا۔ صدقہ کو لوگ خسارہ اور صلہ رحمی کو احسان سمجھیں گے۔
ان چند اقوال زریں کے بعد قومی اور عالمی حالات حاضرہ پر ایک ہلکی نظر ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ غزہ کی تو اسرائیل نے اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے‘ چند برس پہلے کی بات ہے کہ جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں سے نبٹنے کے لئے اسرائیل سے یہ مشورہ لیا تھا کہ ان کے خلاف کون سی عسکری حکمت عملی موثر رہے گی تو اسرائیل نے اسے کہا تھا کہ جس گھر سے اس کی فوج پر فائر کیا جائے‘ اسے صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے‘ چنانچہ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ اسرائیل کی فلسطینیوں اور بھارت کی کشمیریوں کو دبانے کی عسکری حکمت عملی میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ سیاسی مبصرین بتاتے ہیں کہ 1960 ءکی دہاہی میں جو بھارت چین جنگ ہوئی تھی وہ پاکستان کے لئے ایک نادر موقع تھا کہ وہ تھوڑی سی فوج سری نگر میں اتار کر مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے چنگل سے آزاد کر لیتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔