پڑھنے کی کتابیں 

اخبار بینی اور کتب بینی کی صحت پر الیکٹرانک میڈیا کے آ جانے سے انگلستان میں رتی بھر فرق نہیں پڑا لوگ اب وہاں اخبار تازہ خبروں کے لئے نہیں بلکہ اداریوں اور کالمز پڑھنے کے واسطے خریدتے ہیں‘ کچھ اسی قسم کا حال بی بی سی ریڈیو کا بھی ہے‘ ٹیلی ویژن کے چینلز آ جانے کے بعد بھی بی بی سی ریڈیو کی عوامی مقبولیت میں رتی بھر  فرق نہیں پڑا‘اب بھی بی بی سی سے براڈکاسٹ ہونے والا پروگرام ٹو ڈےtoday الیکٹرانک میڈیا کا مقبول ترین پروگرام ہے  انگلستان کا شاذ ہی کوئی ایسا شہرہو کہ جس میں ہر دو فرلانگ کے بعد آپ کو کوئی لائبریری نظر نہ آتی ہو‘ اس معاملے میں ہمارے جیسے ممالک بہت پیچھے رہ گئے ہیں‘اغیار نے اپنے ہاں نصاب تعلیم ایسا مرتب کر رکھا ہے کہ ہر طالب علم کو کسی بھی موضوع پر لکھنے کے واسطے لا محالہ کئی کئی کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے‘ رٹا سسٹم وہاں نہیں چلتا اسی حوالے سے آج ہم اپنے قارئین کی خدمت میں چند معروف کتابوں کا ہلکا سا ذکر کریں گے کہ جو ہماری دانست میں کتب بینی کا شوق رکھنے والے ہر قاری کیلئے پڑھنا ضروری ہیں۔سلطنت روم پر ہماری دانست میں ایڈورڈ گبن کی کتاب the decline and fall of Roman Empire  سے بہتر کتاب انگریزی زبان میں آج تک کسی نے نہیں لکھی اس کتاب کے بارے میں سر ونسٹن چرچل نے جو خود بھی انگریزی زبان کے ادب میں نوبل پرائز کے ایوارڈ یافتہ ہیں نے لکھا ہے کہ میں نے  انگریزی زبان میں لکھنے کا ہنر گبن کی مندرجہ بالا کتاب کو پڑھ کر سیکھا اسی طرح نراد اے چودھری جن کا تعلق بنگال سے تھا اور جو ایک فری لانسر free lancer صحافی تھے‘ ان کی تصنیف جو درج ذیل۔عنوانauto biography  of an unknown Indian تلے چھپی ہے‘بھی پڑھنے کی کتاب ہے اس کے بارے میں اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم چرچل نے کہا تھا کہ نراد چودھری جتنی عمدہ انگریزی لکھ لیتا ہے وہ کوئی انگریز نہیں لکھ سکتا انگریزی زبان کے لکھاریوں کا جب ذکر چل ہی نکلا ہے تو اس ضمن میں بعض دوسرے نامور لکھاریوں کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا ایک عرصے تک خالد حسن پاکستان ٹائمز میں مزاحیہ انداز میں ایک کالم لکھتے رہے جو انگریزی زبان کے قارئین میں کافی مقبول تھا ان کے کالموں پر مشتمل دو تین کتابیں بھی مارکیٹ میں آچکی ہیں‘خالد حسن کے بھائی مسعود حسن بھی ایک اچھے کالم نویس تھے۔ حمید شیخ  HSکے نام سے ایک لمبے عرصے تک روزانہ پاکستان ٹائمز میں کالم لکھتے تھے۔کاوس جی روزنامہ ڈان میں ایک بڑے عرصے تک کالم لکھتے رہے‘ طنز سے بھرپور ان کا ہر کالم فکر انگیز ہوا کرتا‘ وطن عزیز کے اخبارات میں بطور سپورٹس جرنلسٹ جتنا نام فاروق مظہر نے کمایا وہ شاذہی کسی اور سپورٹس جرنلسٹ نے کمایا ہو‘اسی  فیلڈ میں عمر قریشی نے بھی کافی نام کمایا تھا جو ایک لمبے عرصے تک جمشید مارکر کے ساتھ مل کر کرکٹ کے میچوں کی ریڈیو پاکستان سے لائیو کمنٹری بھی کیا کرتے تھے ہمارے پڑوسی ملک ایران میں امام خمینی نے جو انقلاب بپا کیااس نے ایران میں نہ صرف یہ کہ شہنشاہیت کی چولیں ہلا کر رکھ دیں‘ اس سے ایران میں مغربی کلچر کا بھی خاتمہ ہو گیا‘ امام خمینی کی شخصیت اور ان کے لائے گئے  انقلاب کے ثمرات پر تہران کے مشہور صحافی امیر طاہری کی لکھی ہوئی کتاب The return of Ayatullahبھی پڑھنے لائق ایک کتاب ہے‘ اس کتاب کو پولیٹیکل سائنس کے طالب علموں میں از حد پذیرائی ملی ہے۔