آج کے کالم کا آ غاز ہم اپنے قارئین کے اصرار پر چند شہ پاروں سے کرتے ہیں جو آ فاقی حقیقتیں ہیں‘ بے چارہ آ دمی کتنا بے بس ہے موت اس سے نہاں ہے بیماریاں اس سے پوشیدہ ہیں مچھر کے کاٹنے سے چیخ اٹھتا ہے اچھو لگنے سے مر جاتا ہے اور پسینہ اس میں بدبو پیدا کر دیتا ہے‘ حکومت لوگوں کیلئے آزمائش کا میدان ہے‘ بہلول دانا تھا تو مشہور عباسی خلیفہ ہارون رشید کا قریبی رشتہ دار پر وہ مجذوب تھا اور اگر ہارون رشید کی بھی کوئی بات اسے اچھی نہ لگتی تو وہ کھری کھری اسے سنا دیتا ایک مرتبہ وہ اس نئے تعمیر شدہ محل کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ جو ہارون رشید نے بنوایا تھا اور وہ اس کے پاس کھڑا تھا اسے دیکھ کر ہارون رشید نے اس سے پوچھا کہ اس محل کے بارے میں اس کی کیا رائے ہے تو بہلول نے کہا اگر تم نے یہ حرام کی کمائی سے بنایا ہے تو تم خیانت کے مرتکب ہوئے ہو اور اگر تم نے اسے حلال کی کمائی سے تعمیر کروایا ہے تو تم نے اسراف کیا ہے کیا بہلول دانا کا یہ جواب ان تمام لوگوں کے واسطے لمحہ فکریہ
نہیں کہ جو کروڑوں روپوں کی مالیت کے گھر تعمیر کر رہے ہیں اس معدودے چند روزہ زندگی کیلئے جو انہوں نے زمین کے اوپر گزارنی ہے اور پھر ہمیشہ کے واسطے مٹی کی چادر اوڑھ کر لمبی نیند سو جانا ہے کہ جس کی سحر نہ جانے کب ہو کسی کو پتہ نہیں۔ مئی کے مہینے کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اتنا گرم ہوتا ہے کہ اس میں قدرت گرمی کی حرارت سے پھل پکانے کا اہتمام کرتی ہے پر اب کی دفعہ دیکھئے تو ذرا مئی کا ماہ شروع ہو چکا پر گرمی کا نام و نشان تک نہیں ہے اور سردی ہے کہ جانے کا نام نہیں لے رہی اگر تو محکمہ موسمیات کی پیشنگوئی
درست ثابت ہوتی ہے تو امسال کڑاکے کی گرمی متوقع ہے جس سے شمالی علاقہ جات میں گلیشیرز کے پگھلنے سے نشیبی علاقوں میں سیلابوں کا خدشہ ہے جس کے سدباب کے واسطے متعلقہ سرکاری اداروں کو ابھی سے کمربستہ ہونا پڑے گا۔ وزیر اعظم ملکی معیشت کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی جو کوششیں شبانہ روز کررہے ہیں وہ قابل ستائش ہیں وہ ہر ممکن بیرونی امداد حاصل کرنے کے واسطے عرب امارات اور سعودی عرب کے ارباب اقتدار سے گزشتہ چند ماہ سے اس ضمن میں قریبی رابطے میں ہیں ان کی یہ کوششیں اپنی جگہ بروقت ہیں پر اس ملک کے عام آ دمی کی اب یہ دلی خواہش ہے کہ ارباب اقتدار اور حزب اختلاف ملک کے تمام ماہرین معیشت کو یہ ٹاسک دیں کہ وہ ملک کی معیشت کو ایسی ڈگر پر ڈالیں کہ جس سے بغیر بیرونی امداد اورآئی ایم ایف کے قرضوں کے ہمارے ارباب بست و کشاد اپنے
امور مملکت اپنے وسائل سے چلا سکیں اور ملک میں ایک ایسا معاشی نظام قائم کریں کہ جس میں ہر فرد سے حصہ بقدر جثہ کے حساب سے ٹیکس وصول کیا جا سکے کیونکہ کوئی ملک ریونیو جنریشن کے بغیر نہیں چل سکتا جس کیلئے ملک کے صاحب ثروت طبقوں سے انکی آمدنی کے مطابق ٹیکسوں کی ریکوری ضروری ہوتی ہے‘ ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد تازہ ترین خبروں پر ایک طائرانہ نظر بے جا نہ ہوگی‘ زیادہ دور کی بات نہیں چند برس پہلے تک میٹرک کے پرچے اس رفتار سے آؤٹ نہیں ہوا کرتے تھے کہ جس رفتار سے آج کل ہو رہے ہیں اس قسم کی واردات میں ملوث سرکاری اہلکاروں کو صرف معطل کر دینے یا بلیک لسٹ کر دینے سے یہ ناسور ختم نہیں کیا جاسکتا جو لوگ پیسوں کی لالچ میں آ کر اس دھندے میں ملوث ہوتے ہیں وہ قوم کے مستقبل سے کھیل رہے ہوتے ہیں اسلئے انہیں سخت سزا دینی ہو گی بد قسمتی کی بات ہے کہ وطن عزیز میں انٹر میڈیٹ اور میٹرک کے امتحانوں کے پرچے لیک ہو رہے ہیں۔