پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز صاحبہ نے پنجاب کے صوبے میں زندگی کے ہر شعبے میں عوامی فلاح و بہبود کی کئی سکیموں پر بیک وقت کام شروع کر رکھا ہے اور وہ ان کی مانیٹرنگ میں کافی متحرک نظر آ رہی ہیں اور اگر اسی تیز رفتاری سے انہوں نے ان ترقیاتی سکیموں پر کام کی رفتار پر گہری نظر رکھی تو وہ بہت جلد پنجاب کے عوام کے دلوں میں اپنے لئے گھر بنا لیں گی جو اگلے الیکشن میں پھر وزارت عظمیٰ کے منصب کے لئے ان کی راہ ہموار کر سکتی ہے‘۔ادھر زرداری صاحب نے بھی ایک سے زیادہ مرتبہ اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بلاول کو ملک کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کون یہ بازی جیتتاہے‘ عوام کا اب سیاسی شعور اتنا بیدارہو چکا ہے کہ جو بھی اس ملک کے اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کی خواہش اپنے دل میں پالے گا وہ خالی خولی وعدوں کے بل بوتے پر اقتدار اعلیٰ حاصل نہیں کر پائے گا اسے اب ڈیلیور کرنا ہو گا۔ان جملہ ہاے معترضہ کے بعد ذکر کرتے ہیں آ رمی چیف کے اس خطاب کا جو اگلے روز انہوں نے پی اے ایف اکیڈیمی رسالپور میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر کیا، ان کا یہ کہنا سو فیصد بجا ہے کہ آزادی رائے پر عائدواضح قیود کی برملاپامالی کرنے والے دوسروں پر انگلیاں نہیں اٹھا سکتے اور یہ کہ وہ اپنی آئینی حدود سے آ گاہ ہیں اور دوسروں سے بھی آئین کی پاسداری کی توقع کرتے ہیں۔ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس وقت ریاستی اداروں میں جو ایک دوسرے کے خلاف غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کے پھیلانے میں سوشل میڈیا کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ وفاقی وزیر قانون کا یہ کہنا بجا ہے کہ معاشی بحران کا دلدل سنگین ہو رہا ہے‘ حالیہ الیکشن میں مبینہ دھاندلی پر ایک سیاسی پارٹی نے جو وائٹ پیپر جاری کیا ہے اس کے بارے میں عرض ہے کہ کیا یہ اچھا نہ ہوتا اگر یہ الیکشن الیکٹرانک مشین کے ذریعے کرائے جاتے‘ قوم کو واضح اور غیرمبہم الفاظ میں بتلانے کی ضرورت ہے کہ آخر اس بات میں کیا قباحت ہے کہ اس مشین کا استعمال نہیں کیا گیا یا اب بھی اس طرف کسی کی نظر نہیں جا رہی۔ وزارت خارجہ کا یہ بیان قابل مسرت ہے کہ غیر ملکی قوت کو اڈے دینے کی قیاس آ رائیاں غلط ہیں۔
‘ہم نے اس قسم کی ایک غلطی 1960ء میں پشاور کے قریب بڈھ بیر کے مقام پر امریکہ کو ایک اڈہ فراہم کر کے کی تھی کہ جہاں سے ایک امریکی جاسوس طیارہ روزانہ پرواز کر کے سوویت یونین جاتا اور اس کی ملٹری تنصیبات کی فوٹو گرافی کرتا تاوقتیکہ کے جی بی نے اسے مار گرا کر اس کے پائلٹ کو زندہ پکڑ لیا جس نے پھر تمام راز اگل دئیے‘اس دن کے بعد سے سوویت یونین پاکستان کا دشمن بن گیا اور اس کا بدلہ پھر اس نے 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کا ساتھ دے کرہم سے لیا یہ تو خدا خدا کر کے اب کہیں جا کر روس کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہوئے ہیں ہمیں اب دوبارہ امریکہ کے کسی جھانسے میں نہیں آنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔