مئی کے مہینے کے ابتدائی دنوں میں گرمی نے جو جوبن دکھایا ہے اسے محسوس کرنے کے بعد محکمہ موسمیات کی اس پیشگوئی پر شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ جس طرح گزرا ہوا جاڑہ بہت سرد اور طولانی تھا اب کی دفعہ موسم گرما میں کڑاکے کی گرمی متوقع ہے اور بالائی علاقوں میں گلیشیرز کے پگھلنے سے نشیبی علاقوں میں سیلاب کا شدید خطرہ ہے یک نہ شد دو شد‘ ادھر آئندہ چند گھنٹوں کے دوران ملک میں شدید بارشوں کی آمد کی بھی پیشگوئی ہے۔ اگر ایک طرف موسمیاتی تبدیلی نے وطن عزیز کے موسمی کیلنڈر کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے تو دوسری جانب ملک میں مختلف نوعیت کی سانس کی بیماریاں بھی عام ہو گئی ہیں اور طبی ماہرین کی رائے کے مطابق ضروری ہو گیا ہے کہ ملک میں ماسک پہننے کا چلن عام کیا جائے ماسک کا استعمال ویسے بھی درست ہے کہ یہ مختلف قسم کے جراثیم گرد دھول اور مٹی کو ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہونے سے بچاتا ہے اور اس طرح انسانی پھیپھڑوں کو کئی بیماریوں سے
محفوظ رکھتا ہے۔ ان چند ابتدائی کلمات کے بعد آج کل کے تازہ ترین واقعات پر ایک تنقیدی نظر بے جا نہ ہوگی۔ اگلے روز پاک فوج کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں بعض بڑی کھری کھری باتیں کی ہیں جن سے شاذ ہی کوئی اختلاف کر سکے مثلاً ان کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ نفرت کی سیاست چھوڑ دی جائے اور تعمیری سیاست کو فروغ دیا جائے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کا یہ اقدام نہایت ہی صائب اقدام ہے جس کے تحت بزرگ شہریوں کے لئے ہر تین ماہ بعد مفت طبی
معائنے کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے اس فیصلے کے تحت 65سال اور اس سے زائد عمر کے افراد ہر تین ماہ بعد جنرل چیک اپ کے ساتھ تمام لیبارٹری ٹیسٹ مفت کروا سکیں گے۔ ریٹائرمنٹ کی عمر میں مزید اضافے کے بارے میں ایک سے زیادہ آ راء ہیں ایک رائے یہ ہے کہ اس میں مزید اضافہ نہ کیا جائے کیونکہ موجودہ ریٹائرمنٹ کی عمر بھی کافی عمر ہوتی ہے۔ اس خطے کے سابقہ فرنگی حکمرانوں نے بڑے غور و خوض کے بعد اسے 55 برس مقرر کیا تھا جو قیام پاکستان کے بعد بھی ایک عرصے تک جاری رہی بعد میں پہلے اسے 58 اور بعد میں 60 کر دیا گیا البتہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 62 اور 65 رکھی گئی ایک رائے یہ ہے کہ اس میں مزید اضافے سے ریاستی اداروں میں تازہ خون کے آنے کا رستہ بلاک ہو سکتا ہے اور یہ کہ جو اہلکار اپنی
پروموشن کے انتظار میں ہیں وہ دل برداشتہ ہو سکتے ہیں دوسری طرف کی سوچ یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ سے حکومت پر پنشن دینے کا بوجھ بڑھ جائے گا جو سر دست حکومت برداشت نہیں کر سکے گی اس دلیل کا جواب یوں دیا جا رہا ہے کہ حکومت پنشن کی ادائیگی کے بارے جو اصلاحات لا رہی ہے اس سے اس بوجھ کو سر دست برداشت کیا جا سکتا ہے بہر صورت حکومت کو اس ضمن میں ایک ایسا راستہ نکالنا ہوگا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کیونکہ دونوں آ را اپنی اپنی جگہ کافی وزن رکھتی ہیں۔ ملک کے ریاستی اداروں کے درمیان نفرت اور غلط فہمیاں پھیلانے میں سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کا بڑا ہاتھ ہے اب یہ تو ہم کو پتہ نہیں کہ اس جن کو بوتل میں کیسے بند کیا جائے تاکہ عوام کے اذھان میں جو افراتفری اس نے پھیلا رکھی ہے اس پر کنٹرول کیا جا سکے پر اس جن کو بوتل میں بند کئے بغیر دوسرا کوئی چارہ دکھائی نہیں دیتا کہ اس کنفیوژن کا کوئی تدارک کیا جا سکے۔