یہ وطن عزیز میں اخلاقیات کا جنازہ نہیں تو پھر کیا ہے کہ امتحان لینے والے محکمہ تعلیم کے کچھ سرکاری اہلکار خود کمرہ امتحان میں موجود طلباء کو پرچے لیک کر دیں یا پرچے کی تاریخ سے پہلے پرچہ آ ؤٹ ہو جائے یہ سب کچھ روزانہ ہم دیکھ رہے ہیں‘کیا وقعت ہو گی اس قسم کے امتحان سے پیسوں کے بل بوتے اور غلط حربوں کے بل بوتے پر حاصل کی گئی ڈگری کی۔ کارکردگی کا وہ معیار اب نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا‘یہ انحطاط تباہ کن ہے کسی نے سچ کہا ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینسں‘ پیسے میں جو قوت ہے اس کا نظارہ ہم جیسے ترقی پذیر معاشرے میں ہر شعبہ زندگی میں کھل کر دیکھا جا سکتا ہے‘ مختلف شعبوں میں افراد کی تعداد بلا شبہ زیادہ ہو رہی ہے‘پر ان شعبوں سے تعلق رکھنے والے
اہلکاروں کے کام کا وہ معیار اب نہیں رہا جو کبھی تھا۔ ان ابتدائی کلمات کے بعد ملکی اور عالمی اہم امور کا ہلکا سا تزکرہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ غزہ کا مسئلہ طول پکڑ چکا ہے اور مستقبل قریب میں اس کا کوئی حل نکلنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ بھارت میں مودی سرکار نے بھی کشمیریوں کے ساتھی وہی سلوک روا رکھا ہے کہ جو اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے دونوں طرف مسلمانوں کے خلاف کاروائیاں ہو رہی ہیں اور ان کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ یوکرائن کی جب تک امریکہ ہلہ شیری کرتا رہے گا اور اسی طرح جب تک تائیوان کو امریکہ تھپکی دیتا رہے گا‘کسی وقت بھی یہ دنیا تیسری عالمگیر جنگ کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس وقت دنیا میں صرف چین کی قیادت وہ واحد قیادت ہے کہ جس کی تاریخ پر گہری نظر ہے اور اس نے اپنے ملک کو سپر پاورز کے آپس کے جھگڑوں اور
جھمیلوں سے دور رکھ کر اپنی تمام تر توجہ اپنی تعلیم‘ سائنس اور معاشی و اقتصادی ترقی کی طرف مبذول کی ہوئی ہے اور ان کے ثمرات بھی اسے حاصل ہو رہے ہیں۔مقام شکر ہے کہ انجام کار ارباب اقتدار کو یہ احساس اب ہو چلا ہے کہ معاشرے میں سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی نے مختلف شعبوں میں جو انتشار اور غلط فہمیاں پیدا کر دی ہیں‘ان کے تدارک کے واسطے کسی ریگولیٹری اتھارٹی کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں مناسب قانون سازی کا اہتمام کیا جانے والا ہے‘آزادی رائے بلا شبہ انسان کا بنیادی حق ہے پر ایسی آزادی بھی نہ ہو کہ جو معاشرے میں بے حیائی اور بڑے چھوٹے کی تمیز ختم کر دے‘کسی نہ کسی صورت میں سنسرشپ ضروری ہے۔