معاشی انصاف کیلئے طولانی جنگ

ابتدائے آ فرینش سے لے کر تادم تحریر تاریخ کے مختلف ادوار میں معاشرے میں معاشی انصاف کے حصول کے واسطے کئی نابغوں نے دنیا کے کئی حصوں میں ایک لمبی جدوجہد کی ہے‘اس کاوش میں کئی افراد جان کی بازی بھی ہارے‘پر بعض ایسے خوش قسمت بھی نکلے جن کو وہ دن نصیب ہوا جب ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے ملک کے عام آ دمی کے دن پھر گئے‘ ان خوش قسمتوں میں جن زعماء کے نام اس وقت ذہن میں آ رہے ہیں وہ یہ ہیں سوویت یونین کے لینن‘ چین کے ماؤزے تنگ اور چو این لائی‘ شمالی ویت نام کے ہون چن من‘ کیوبا کے فیڈل کاسترو‘یوگو سلاویہ کے مارشل ٹیٹو اور ایران کے امام خمینی شامل ہیں‘جن سیاسی مفکرین اور فلسفیوں نے ان لیڈروں کی ذہنی پرورش اور آبیاری کی‘ان کے ناموں کا اگر ذکر نہ کیا جائے تو بات ادھوری رہ جائے گی۔انقلاب فرانس‘ بشمول یورپ کے دوسرے ممالک میں بپا ہونے والے معاشی انقلاب کا  جب بھی  ذکرہوگا   تو درج ذیل مفکرین کا ذکربھی خواہ مخواہ ہو گا‘ روسو جو ذاتی ملکیت اور عدم مساوات اور جاگیرداری نظام کا   دشمن تھا ان کے  نزدیک تمام برائیوں کی جڑ ذاتی ملکیت تھی بالخصوص زمین کی ملکیت‘برطانیہ کے مفکر ہابس کا کہنا  تھاکہ ابتدا ء میں سب لوگ برابر تھے‘نہ کوئی چھوٹا تھا نہ بڑا‘مابلی کے نام سے بہت کم لوگ آ شنا ہیں‘ اگر کوئی شخص یہ کہتا  کہ طبعی حالات کی وجہ سے انسانوں کے درمیان فرق پیداہو جاتا ہے تو مابلی یہ جواب دیتا  کہ قدرتی صلاحیتیں سب لوگوں میں قریب قریب یکساں ہیں جو فرق ہمیں نظر آ تا ہے وہ دراصل تعلیم‘ تربیت اور معیار زندگی کے فرق کا نتیجہ ہے‘مابلی کے مطابق تمام اخلاقی برائیوں کی جڑ ذاتی ملکیت ہے‘مابلی کہتاکہ دنیا میں جو ترقی ہوئی ہے خواہ وہ سائنسی علوم میں تھی یا ادب و فنون میں‘اس میں ذاتی منفعت کا جذبہ کم رہا ہے‘کیا افلاطون نے سقراط نے یاہومر نے پیسے کی خاطر لکھا تھا‘مابلی کا مطالبہ تھا کہ ذاتی استعمال کی چیزوں کے علاوہ تمام ملکیت ریاست اپنی تحویل میں لے لے‘ ہر شخص کو ریاست روزگار فراہم کرے‘ ہر شخص اپنی جسمانی قوت اپنی عمر اور اپنی لیاقت کے مطابق معاشرے کی خدمت کرے۔ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد آج کے تازہ ترین عالمی اور مقامی واقعات پر ایک ہلکی نظر ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ گوادر بدستور ان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے جو پاک چین دوستی میں رخنہ ڈالنے کے لئے وطن عزیز کے دشمنوں کے اشاروں پر سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں‘ اگلے روز گوادر میں رہائشی کواٹرز پر دستی بموں کا حملہ اسی سازش کا ایک حصہ تھا ملک د شمن عناصر اس قسم کی کاروائیوں سے بلوچستان میں کام کرنے والے چینیوں کو ڈرا دھمکا کر یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں‘ان حالات میں ملک کے تمام سیاسی مکتبہ ہائے فکر کے ساتھ تعلق رکھنے والے عناصر کی ذمہ داری ہے کہ سر دست وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں کو ترک کر دیں اور افہام و تفہیم کا رستہ اپنائیں‘ ورنہ خاکم بدہن اس ملک کی بقا ء خطرے میں پڑ سکتی ہے۔یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ اس وقت ملک کا سیاسی میدان جنگ کا اکھاڑہ بنا نظر آ رہا ہے جو ملک کی سا  لمیت  کیلئے سم قاتل ہے۔ 

ایران کی اسرائیل کو اس دھمکی نے کہ خطرہ لاحق ہوا تو جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں‘مشرق وسطیٰ میں جاری اسرائیل اور فلسطینیوں کی جنگ میں مزید شدت پیدا کر دی ہے۔ یوکرائن اور روس کے درمیان بھی تلخی میں آ ئے دن اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ملک کے اندر اس قسم کے جھگڑے نہیں ہونے چاہئیں جو اگلے روز لاہور میں پولیس اور وکلاء برادری کے ارکان کے درمیان دن بھرہوتے رہے۔