ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ جب ہماری کرکٹ ٹیم غیر ملکی ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے بیرون ملک جایا کرتی تو لامحالہ دورے کے اختتام کے بعد وطن واپسی پر اس ٹیم کا کپتان اپنے اس دورے کے نشیب و فراز پر مبنی ایک کتاب رقم کرتا اس ضمن میں ہم نے جو آ خری کتاب پڑھی تھی تو وہ پاکستان کے دورہ ویسٹ انڈیز پر تھی جو پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار نے لکھی تھی جو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے1957 ء میں دورہ ویسٹ انڈیز کے متعلق تھی اور اس کا عنوان تھا under the green canopy کاردار صاحب کافی پڑھے لکھے فرد تھے، وہ آ کسفورڈ کے فارغ التحصیل تھے، بر صغیر کی تقسیم سے قبل وہ ہندوستان کی کرکٹ ٹیم میں بھی چنے گئے تھے پر جسے وہ چھوڑ کر پاکستان آ گئے تھے‘کاردار کے بارے میں کرکٹ کے مبصرین کی متفقہ رائے یہ تھی کہ ان جیسا مضبوط اور اعلیٰ منتظم پھر پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو دوبارہ نصیب نہیں ہوا، وہ سخت قسم کے disciplinarian تھے اور ٹیم کے کھلاڑی ان سے بیک وقت خائف بھی رہتے اور ان کی عزت بھی بہت کرتے۔ وہ خود تو خیر ایک اوسط درجے کے آ ل راؤنڈر ہی تھے پر ان میں قائدانہ صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کی پیدائش لاہور کے اندرون بھاٹی گیٹ کی تھی کہ جس نے امتیاز احمد، نذر محمد اور مدثر نذر جیسے نامور کرکٹ کے کھلاڑی بھی پیدا کئے۔ کاردار اس مایہ ناز پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے کہ جس نے 1954 ء کے دورہ انگلستان کے دوران انگلستان کی کرکٹ ٹیم کو اوول کے میدان میں اسی کی سر زمین پر شکست دے کر پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا درجہ دلوایا اس ٹیم کا ہر کھلاڑی اپنی جگہ ایک نابغہ تھا۔ اس دورے کے دوران فضل محمود کے لیگ کٹرز leg cutters کو انگلستان کا کوئی بھی بلے باز نہ سمجھ سکا اور نہ کھیل سکا۔اسی دورے میں پاکستان کے اوپننگ بیٹسمین حنیف محمد جو عمر کے لحاظ سے اس وقت کافی چھوٹے تھے کو the little master کا خطاب ملا۔
اس ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کے نام یہ تھے علیم الدین،وقار حسن،مقصود احمد،خان محمد، محمود الحسن،شجاع الدین، وزیر محمد اور امتیاز احمد افسوس کہ آج ان میں کوئی بھی بقید حیات نہیں۔پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کا فرض ہے کہ مندرجہ بالا کھلاڑیوں کے کھیل پر ایک دستاویزی فلم بنائے جسے پھر ہر سال اگست کے ماہ میں ٹیلی کاسٹ کیا جائے کیونکہ 1954 ء میں وہ اگست کا مہینہ تھا جب اس ٹیم نے انگلستان کی کرکٹ ٹیم کو ہرا کر دنیائے کرکٹ میں اپنی شناخت کروائی تھی۔ انگلستان جانے سے پیشتر اس ٹیم نے ہندوستان کا بھی دورہ کیا تھا‘1954 ء اور اس کے بعد بھی کافی عرصے تک ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی بیٹنگ کا سٹارٹ حنیف محمد اور علیم الدین سے کرایا جاتا۔ اوپننگ بلے بازوں کی یہ جوڑی کئی برسوں تک چلی۔ون ڈاؤن کی پوزیشن پر وقار حسن آ تے جو بڑے سٹائلش بلے باز تھے ان کے بعد مقصود احمد اور پھر امتیاز احمد بیٹنگ کیلئے آ تے۔ امتیاز اور مقصود دونوں جارحانہ بیٹنگ کیلئے مشہور تھے۔پاکستان اپنی باؤلنگ کا آغاز خان محمد اور محمود الحسن سے کرتا اور ان کے بعد فضل محمود باؤلنگ کرتے۔ کاردار اور شجاع الدین اچھے اور موثر آ ل راؤنڈر تھے۔ذوالفقار بہت اچھی سپن باؤلنگ کرتے یہ تو وہ کھلاڑی تھے کہ جو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ابتدائی دور میں کھیلتے تھے۔ ان کے بعد کئی اور کھلاڑی وقتا ًفوقتاً پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ممبر بنے اور انہوں نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا۔ ان میں سے چند ایک کے نام حسب ذیل ہیں، مناف،نسیم الغنی۔ حسیب احسن، مشتاق محمد، صادق محمد، والس متھائس،آصف اقبال،ظہیر عباس،سعید احمد،سرفرازنواز، محسن حسن خان اورنتخاب عالم۔کہا یہ جاتا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں فضل محمودجیسا خوبرو کھلاڑی پھر نہ پیدا ہو سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔