افغان حکومت نے پاکستانی وفد کا دورہ قندھار منسوخ کر کے کوئی اچھا قدم نہیں اٹھایا۔بات چیت اور گفت شنید کا پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک منظم اور ریگولر سلسلہ آج وقت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ آئے دن پاک افغان بارڈر پر ان دو ممالک کے سکیورٹی عملے کے درمیان چھوٹی چھوٹی باتوں پر کشیدگی رہتی ہے جن کے فوری حل کے واسطے دونوں ممالک کے درمیانے درجے کے عسکری حکام اور سیاسی عمائدین کا روزانہ کی بنیادوں پر تواتر سے رابطہ ضروری ہے۔یوکرائن کی اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ از خود روس جیسی سپر پاور سے اتنے لمبے عرصے تک پنگے لیتا رہے‘ِاگلے روز یوکرائن نے روس پر جو میزائل کا حملہ کر کے اس کے 13 افراد ہلاک کئے ہیں اس میں امریکہ کا ہاتھ نظر آ تا ہے کیونکہ وہ یوکرائن کی ہلہ شیری کرنے سے باز نہیں آ رہا۔ گزشتہ پیر کے روز قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن کے اراکین کے درمیان تلخ کلامی کے دوران جن جملوں کا تبادلہ ہوا،وہ کافی افسوس ناک امر تھا ہم اسی کالم کے توسط سے بارہااراکین پارلیمنٹ کو یہ بات گوش گزار کر چکے ہیں کہ وہ بحث و مباحث کے دوران اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ ان کے منہ سے کوئی ایسے الفاظ نہ نکلیں جو کسی شخص یا طبقے کی دل آ زاری کا باعث بنیں یا اخلاق باختہ ہوں کیونکہ ایک دنیا کی نظر ان کی گفتار کے انداز اور معیار پرہوتی ہے اور خصوصاً ملک کی نئی نسل ان کی اچھی اور بری باتوں کا اثر لیتی ہے بزرگوں سے ہم نے سنا ہے اور کتابوں میں ہم نے پڑھا ہے کہ تلوار کا زخم تو بھر جاتاہے پر زبان سے جو گھاؤ لگایا جائے وہ کبھی بھی نہیں بھرتا۔ اسمبلی میں وہ زبان کسی کو بھی استعمال کرنا زیب نہیں دیتا۔ محرم الحرام 2024 ء کو اب دو ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے‘ ابھی سے ہی ارباب اقتدار کو وہ تمام حفاظتی اقدامات اور انتظامات اٹھانا شروع کر دینا چاہیے کہ جن سے محرم کے پہلے چالیس دن امن عامہ کے محاذ پرخیر خیریت سے گزر جائیں کیونکہ وطن عزیز کے دشمن محرم الحرام جیسے مقدس ماہ میں ہی کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس ملک میں فرقہ واریت کے ذریعے اس کا امن عامہ تاراج کریں ان کے ہاتھ میں خودکش حملے ایک بڑا ہتھیار ہے اور خودکش حملوں کے تدارک میں اگر کوئی ریاستی ادارہ موثر کام کر سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف انٹیلی جنس ایجنسیاں ہی ہیں۔
اگر وہ چوکس رہیں اور بم پھاڑنے سے پیشتر ہی خودکش حملہ آوروں تک جا پہنچیں تو ملک کو خونریزی سے کافی حد تک بچایا جا سکتا ہے کیونکہ خودکش حملہ آور کو اپنی اس مذموم حرکت کو سر انجام دینے کے واسطے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اگر انٹیلی جنس کے ادارے ان کو ان مراحل کے دوران ہی دھر لیں تو وہ پھر اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔