دبئی پراپرٹی لیکس میں جو اربوں ڈالرز کی جائیداد کے مالک نکلے ہیں وہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے عرصہ دراز سے عرب امارات کے ممالک۔ بشمول دبئی نے فارن کیپیٹل کو اپنے ملکوں کی طرف کھینچنے کی طرف غیر ملکی سرمایہ داروں کو کھل چھٹی دے رکھی تھی کہ وہ اپنا سرمایہ بلا کسی روک ٹوک کے ان کے ہاں پراپرٹی میں یا کسی اور بزنس میں انوسٹ کر سکتے ہیں اور یہ کہ ان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ انہوں نے یہ دھن کیسے اور کس طرح کمایا ہے چونکہ انگلستان اور دیگر ممالک کے بنکوں نے ایک عرصے سے اپنے ہاں سخت پابندی لگا رکھی ہے اور وہ اب وہاں پر پیسے ٹرانسفر کرنے والوں سے پوچھ گچھ کرتے ہیں‘ لہٰذا پچھلے کئی برسوں سے دھڑا دھڑ یار لوگوں نے اپنا دھن متحدہ عرب امارات میں انوسٹ
کرنے کو ترجیح دی ہے۔ چاروں طرف شوروغوغا ہے کہ سوشل میڈیا نے ملک میں ذہنی انتشار کی ایک فضا پیدا کر دی ہے پر ارباب بست و کشاد اس مرض کا کوئی مستقل علاج نہیں ڈھونڈ رہے اس پر ہمیں ایک مشہور برطانوی لکھاری کا وہ جملہ یاد آ یا کہ ہر کوئی انگلستان کے ناقابل اعتبار موسم کا گلہ کرتا ہے پر کوئی بھی اس کو ٹھیک نہیں کر رہا۔ اس
میں تو کوئی دو آ راء نہیں ہیں کہ جہاں اگر ایک طرف سوشل میڈیا ملک میں عریانیت‘ فحاشی اور مادر پدر آزاد قسم کا مواد دکھا رہا ہے جو بڑے بوڑھے اپنے اہل خانہ کے ساتھ اکٹھے بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے تو دوسری طرف بغیر تحقیق کے ایسی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں کہ جو کردار کشی کے زمرے میں آ تی ہیں اور جن سے معاشرے میں تناؤ اور خلفشار پیدا ہو رہا ہے آخر حکومت سوشل میڈیا پر سخت قسم کی سینسر شپ نافذ کرنے میں کیوں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ گزشتہ روز شعبہ ابتدائی و ثانوی تعلیم کے حوالے سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے زیر
صدارت ایک اجلاس میں وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ اگلے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں سکول کے بچوں کو مفت کتابوں کے ساتھ ساتھ مفت بیگز دینے کا منصوبہ بھی شامل کیا جائے اور مفت درسی کتب کی کوالٹی کو بہتر بنایا جائے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ نئی عمارتیں تعمیر کرنے کی بجائے جہاں ضرورت پڑے وہاں کرائے کی عمارتوں میں نئے سکولز کھولے جائیں اورتمام اسکولوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور واش رومز کی دستیابی یقینی بنائی جائے۔ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ کا یہ اعلان قابل تعریف ہے کیونکہ اس سال بچوں کو کتب کی مفت فراہمی نہ ہونے کے باعث جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ طلبہ اور خاص طور پر ان کے والدین کے لئے پریشانی کا سبب رہی ہیں۔