انتشار سے اجتناب

آزاد کشمیر میں گزشتہ چند دنوں سے امن عامہ کی جو گھمبیر صورت حال پیدا ہوئی‘ اس کی بنیادی وجہ گڈ گورننس کا فقدان ہے اگر آپ پرانے اخبارات اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آزاد کشمیر کے عوام ایک لمبے عرصے سے بعض معاملات میں سراپا احتجاج تھے ایک سال قبل راولا کوٹ میں عوام آٹے کے بحران کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے اس ایک سال میں وہاں کے متعلقہ حکام نے ان کے اس مسئلے کو حل کرنے کے واسطے کیا قدم اٹھائے ان سے عوام آ گاہ ہیں‘عوام کی یہ شکایت بجاہے کہ آزاد کشمیر میں بجلی کی پیداوار کیلئے ڈیم بناے گئے ہیں برقی توانائی پر پہلا حق کشمیری عوام کاہے یہ بالکل وہی بات ہے کہ جب بلوچستان میں سوئی کے مقام پر قدرتی گیس دریافت ہوئی تھی تو وہاں کے عوام کو نظر انداز کر کے سوئی گیس ملک کے دوسرے علاقوں کو سپلائی کی جانے لگی تھی جس پر اس وقت مقامی لوگوں نے احتجاج کیا تھا‘بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت نے یقینا مندرجہ بالا مسائل کو حل کرنے کیلئے بروقت اقدامات نہیں اٹھائے اور جو اقدامات بعد از خرابی بسیاراب لئے جا رہے ہیں‘ یہ ایک برس قبل اٹھا لئے جاتے تو آزاد کشمیر میں صورت حال اس قدر کبھی نہ بگڑتی جتنی کہ اب خراب ہوئی۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے عام پاکستانی کو بھی ریلیف پہنچانا ارباب اختیار کی ذمہ داری میں آتا ہے اس سے بسوں‘ویگنوں اور ٹرکوں کے کرایوں میں بھی مناسب کمی ہونی چاہیے اور اشیائے صرف کی قیمتیں بھی گرنی ضروری ہیں۔پر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ایسا شاذ ہی ہوتا ہے‘ جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اس کی آڑ میں وطن عزیز کے تمام مندرجہ بالا حلقے اپنے اپنے پیشے سے متعلق  کاموں کے نرخ بڑھا دیتے ہیں‘ دراصل ارباب بست و کشاد نے اس ضمن میں کوئی ایسا میکینزم مرتب ہی نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ایسا ادارہ قائم کیا کہ وہ عالمی سطح پر پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کوپیش نظر رکھ کر ملک میں پٹرولیم مصنوعات اور مختلف کاموں اور تجارت میں استعمال ہونے والے تیل کی مقدار کو سامنے رکھ کر ایک منصفانہ قیمتوں کا میکینزم مرتب کرے۔  وطن عزیزکو جن نامساعد حالات کا سامنا ہے کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیجئے گا اس میں اسی فیصد خبریں سیاست دانوں کی آپس میں چھوٹی چھوٹی   چپقلشوں کے  بارے میں ہوں گی ان کو پڑھ کر یہ تاثر ملتا ہے جیسے وطن عزیز میں اور کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں صرف سیاست دانوں کے ایک دوسرے کے خلاف بیان چھپ رہے ہیں۔ ٹیلی ویژن کے پرانے ناظرین پرانے دنوں کو یاد کرتے ہیں کہ جب میدان میں صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا پر اس کے کرتا دھرتاؤں نے کمال مہارت سے اپنے پروگراموں کا ایسا شیڈول بنایا ہوا تھا کہ اس میں ڈرامے بھی ہوتے‘ مشاعرے بھی نشر ہوتے‘ کلاسیکی موسیقی  کے پروگرام بھی اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے نابغوں کے انٹرویو بھی۔ مختصر یہ کہ ملک میں موجود ہر نقطہ نظر سے تعلق رکھنے والے طبقے کے ذوق سلیم کا خیال رکھا جاتا‘آج وقت کا تقاضا تو  یہ ہے کہ تمام سیاست دان اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی  اختلافات ختم کر کے ملک اور اس میں جمہوریت کے مستقبل کے لئے یک جان دو قالب ہو کر کام کریں‘ ورنہ اس ملک میں کہیں ایک مرتبہ پھر جمہوریت کی بساط  لپیٹ نہ دی جائے۔ اب تو اس ملک کے ارباب بست و کشاد کو یہ بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ آئی ایم ایف سے قرضے لینے کا کیا مطلب ہوتا ہے‘  قرض لینے والے ملک کو اس طرح مالی طور پر نچوڑ لیا جاتا ہے کہ جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اپنے قرضوں کی واپسی کو یقینی بنانے کیلئے وہ قرضدار ممالک کو ایسے ناروا اور عوام کش ٹیکس اپنے عوام پر لگانے پر مجبور کر  دیئے جاتے ہیں جو بالآخر ان کی سیاسی موت کا سبب بن جاتے ہیں‘ اس لئے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اقتدار جتنی جلدی ہو آئی ایم ایف کے چنگل سے اپنی جان چھڑائیں۔۔۔۔