سید فرید اللہ شاہ کا شمار اس ملک کے سینئر ترین سرکاری افسران میں ہوتا تھا‘وہ غلام اسحق خان‘ روئیداد خان اور ان جیسے پرانے سرکاری اہلکاروں کے ہم عصر تھے جنہوں نے ان سیاسی عمائدین کو بڑے قریب سے دیکھا تھا کہ جو تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل تھے ایک مرتبہ انہوں نے ہمیں دور حاضر کے رہنماؤں کے سرکاری پیسوں پر اللے تللے کرنے پردکھ کا اظہار کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا انہوں نے بتایا کہ نیا نیا پاکستان بنا تھا اس وقت کے این ڈبلیو ایف پی کے سرکاری گاڑیوں کے پول میں کل پانچ گاڑیاں تھیں اور وزیر اعلیٰ سمیت وزراء کی تعداد چھ تھی‘ اب ان گاڑیوں میں ایک تو وزیراعلیٰ کے استعمال کے لئے مختص ہو گئی‘ باقی بچی چار گاڑیاں اور وزیر تھے پانچ۔اب سوال یہ پیدا ہوا کہ ان چار گاڑیوں کو پانچ وزراء میں کیسے تقسیم کیا جائے؟صوبے کے مالی حالات اس قابل نہ تھے کہ ایک نئی گاڑی خریدی جا سکے‘ چنانچہ ان وزراء نے آپس میں مل کر فیصلہ یہ کیا کہ وہ اپنا کام اس طرح چلائیں گے کہ جس دن کسی سرکاری کام پر کسی وزیر نے پشاور سے باہر جانا ہوگا اس دن ایک وزیر دورہ نہیں کرے گا‘ اس باہمی شراکت اور ہم آہنگی سے ان پانچ وزراء نے ایک سال تک گزارا کیا اس وقت تک کہ جب صوبے کے مالی وسائل اتنے ہو گئے کہ پانچویں گاڑی خریدی جا سکے۔ اس قسم کی قناعت کی مثال بعد میں آنے والے کسی حاکم کے رویوں میں کیا آپ کو نظر آ تی ہے؟ پرانے بیوروکریٹس اور سیاست دانوں دونوں کے رویوں میں سادگی اور قناعت کا عنصر نمایاں تھا‘اس کے بعد تو مال مفت دل بے رحم والی بات تھی۔ایک مرتبہ ورلڈ بینک کے ایک سئینر افسر ایک ا علیٰ سطحی میٹنگ میں شرکت کے واسطے جب ایوان صدر گئے اور ان کی نظر اس کی چھتوں سے لٹکتے ہوئے قیمتی فانوسوں
اور کمروں میں پڑے مہنگے فرنیچر پر پڑی تو انہوں نے نہایت ہی معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ یہ جملہ کہا‘ اب پتہ چلا کہ ہم سے لئے گئے قرضوں کا استعمال کہاں ہوتا ہے۔ملکہ الزبتھ کے شوہر پرنس فلپس بڑے منہ پھٹ قسم کے انسان تھے وہ ایک مرتبہ پاکستان کے دورے پر جب اسلام آباد کے ائرپورٹ پر اترے تو ہمارے فارن آفس کے پروٹوکول والے ان کو لینے آٹھ دروازوں والی بڑی لیموزین limousineگاڑی لے گئے‘ انہوں نے بڑے طنزیہ انداز میں پروٹوکول افسر سے کہا‘اچھا تو آپ اب بھی اس قسم کی گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں‘ہم نے تو ایک عرصہ ہوا ان کا استعمال ترک کر دیا ہے۔ غلام اسحق خان سینٹ کے چیئرمین تھے‘ ایک دن ان کے اکلوتے بیٹے نے جب بلیو ایریا اسلام آباد جانے کے لئے گاڑی مانگی اور ان کے سیکرٹری نے ان کی اجازت چاہی تو غلام اسحاق خان نے سرکاری گاڑی اسے دینے سے انکار کر دیا اور اپنے سیکرٹری سے کہا کہ برخوردار سے کہہ دیا جائے کہ وہ ٹیکسی میں چلا جائے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا کے ایک سابق گورنر جنرل غواص کے بیٹے نے جو چھٹی پر پشاور آئے ہوئے تھے‘ واپس جانے کے واسطے اسلام آباد تک گورنر ہاؤس کی گاڑی مانگی تو انہیں کہہ دیا گیا کہ گاڑی ان کو جی ٹی روڈ پر واقع لاری اڈے تک چھوڑ آئے جہاں سے وہ نجی ٹرانسپورٹ کی کسی بھی بس میں سوار ہو کر جا سکتے ہیں۔اسی طرح خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک بیوروکریٹ محمد عبداللہ جو مختلف اعلیٰ انتظامی مناصب پر کام کرنے کے بعد خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے‘ بھی مالی طور پر نہایت ہی دیانت دار افسر تھے وہ تو اتنے ایمان دار تھے کہ جب وہ بطور چیف سیکرٹری اپنا چارج چھوڑ رہے تھے تو انہوں نے اپنے فاؤنٹین پین میں موجود سیاہی کے وہ قطرے بھی سیاہی کی دوات میں یہ کہہ کر انڈیل دئیے کہ چونکہ اب وہ سرکاری منصب پر موجود نہیں رہے اپنے فاؤنٹین پین میں وہ سرکار کے پیسوں سے خریدی انک ink کو استعمال کرنا غلط تصور کرتے ہیں۔