پارلیمانی جمہوریت کا المیہ 

پارلیمانی جمہوریت کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ اگر اس میں کسی بھی سیاسی جماعت کو الیکشن میں اتنی نشتیں نہ ملیں کہ وہ ازخود حکومت بنا سکے اور حکومت سازی کے واسطے اسے اسمبلی میں دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے انکے پاؤں پکڑنے پڑیں تو وہ کبھی بھی اپنے انتخابی منشور پر سوفیصد عمل درآمد نہیں کر سکتی‘ اسی طرح اگر اسمبلی میں آزاد امیدواروں کی تعداد زیادہ ہو تو تب بھی  وہ  اکثر برسراقتدار حکومت کیلئے ایک درر سر بن جاتے ہیں اور حکمران پارٹی کو ان کا ہر جائز و ناجائز مطالبہ  ماننا  پڑتا ہے‘ ہمارے اکثر پارلیمانی اراکین نے اس دور اندیشی اور سیاسی  بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا کہ جو وقت کا تقاضا تھا۔کئی سیاسی پارٹیوں کو الیکشنز میں دو تہائی نشستیں بھی ملیں وہ اگر چاہتیں تو زندگی کے کئی شعبوں میں اصلاحات لا سکتی تھیں پر انہوں نے وہ مواقع ضائع کر دئیے اور ایسے ایسے غلط کام کئے کہ جن کی بنا پر  بعض قوتوں نے ان کی بساط ہی لپیٹ دی‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آ خر کونسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے  اب یہ سوال پیداہوتا ہے کہ کیا اس ملک میں ایسے افراد ہیں جو فوراً سے پیشتر اس قسم کی انتخابی اصلاحات کا نفاذ کر سکیں‘ تب ہی کہیں جا کر اس قسم کی قانون سازی کی جا سکے گی کہ جس کے ذریعے زندگی کے کئی شعبوں میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے‘ان ابتدائی سطور کے بعد چند اہم قومی اور عالمی امور پر درج ذیل گذارشات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں‘ اگلے روز بیجنگ میں روسی صدر کا جس گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اس سے ایک مرتبہ پھر یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ روس اور چین جس قدر آج یک جان دو قالب ہو چکے ہیں شاید تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہ ہوئے تھے‘اس قربت سے دنیا میں کمیونسٹ بلاک ایک نہایت ہی مضبوط شکل اختیار کر گیا ہے جو امریکہ اور اس کے حواری ممالک کیلئے یقیناً قابل تشویش امر ہے یہ آج کی روسی اور چینی سیاسی قیادت کی دور اندیشی سیاسی فراست کی غماز  ہے کہ انہوں نے درست اندازہ لگا لیا ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور کا سیاسی توڑ صرف اسی صورت میں ہی ہو سکتا ہے کہ ماسکو اور بیجنگ ایک مشترکہ سیاسی حکمت عملی سے دنیا میں امریکہ کی ریشہ دوانیوں کا سد باب کریں۔