قبائلیوں کی وطن عزیز سے لازوال محبت 

باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان تک پھیلے ہوئے علاقے میں جو قبائل بستے ہیں ان کی وطن عزیز کے ساتھ محبت لازوال اور قابل رشک ہے تحریک پاکستان کے دنوں میں بھارتی کانگریس کے نہرو جیسے نیتاؤں نے اس قبائلی پٹی کا دورہ کیا تاکہ اس میں وہ اپنے سیاسی قدم جما سکیں پر انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ ان کی یہاں دال گلنے والی نہیں ہے کیونکہ قبائلی مشران نے اپنے طرز عمل اور گفتار سے ان پر ثابت کر دیا کہ ان کا قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ پرغیر متزلزل اعتماد ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ایک لمبے عرصے تک بھارتی حکومت نے افغانستان کے حکمرانوں کی آشیر باد سے قبائلی علاقوں میں پیسوں کے زور پر اپنے ہم نوا پیدا کرنے کی ناکام کوشش جاری رکھی پر چونکہ فاٹا میں بسنے والے عوام کی اکثریت ان مشران کی وطن عزیز کے خلاف بھارتی حکام کے ایما پر سازشوں کو بھانپ گئی تھی انہوں نے ان کا پاکستان کے خلاف کسی بھی سازش میں آلہ کار بننے سے انکار کر دیا اپنے عوام کا موڈ دیکھ کر انہوں نے کابل کے حکمرانوں سے اپنا ناطہ توڑ دیا اور اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ افغان حکمرانوں سے اپنا لنک منقطع کر لیں‘چنانچہ وہ دھیرے دھیرے فاٹا کی پولیٹیکل انتظامیہ کے آ گے سر تسلیم خم کرتے گئے یا 1947 ء کا وہ دور تھا کہ جب فاٹا کا صرف 25 فیصد علاقہ دوسرے پاکستانیوں کے لئے قابل رسائی تھا یعنی وہ بغیر کسی باڈی گارڈ کے وہاں آ جا نہیں سکتے تھے اور یا پھر 1985ء میں اس کا 85 فیصد علاقہ عام پبلک کے لئے کھل چکا تھا‘ قبائلی مشران اور پولیٹیکل انتظامیہ کی مشترکہ کاوش سے پورے فاٹا میں سڑکوں کا جال بچھ گیا تھا اور یہ سب کچھ پولٹیکل قبائلی مشران سے پولٹیکل انتظامیہ کے ڈائیلاگ سے بغیر کوئی گولی چلائے یا کسی عسکری کاروائی کے صرف گفت و شنید سے ممکن ہوا تھا فاٹا میں تعلیم عام کرنے سے وہاں جو جواں سال نسل  1950 ء اور 1960 کی دہائی میں پروان 
چڑھی اس نے وطن عزیز کے ہر شعبہ زندگی میں اپنی نمایاں کارکردگی سے کافی نام کمایا اور پاکستان کی بے حد خدمت کی افواج پاکستان نے طب انجینئرنگ تعلیم غرضیکہ ہر فیلڈ میں اپنا لوہا منوایا۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ جو علاقہ پہلے فاٹا کہلاتا تھا اور خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم ہونے کے بعد اب سابقہ فاٹا کے نام سے پکارا جاتا ہے اس کے بارے میں عسکری ماہرین کی یہ رائے ہے کہ دنیا بھر میں ہر جگہ قبائلی علاقے موجود ہیں پر فاٹا کا جو جغرافیائی محل وقوع ہے وہ منفرد نوعیت کا ہے اور اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی‘وہ اسے فوجی نقطہ نگاہ سے جب دیکھتے ہیں تو اسے جنگ کے لئے مشکل ترین علاقہ قرار دیتے ہیں اور یہی غالباً ایک بڑی وجہ تھی کہ فرنگیوں نے اس کا انتظامی نظام بالواسطہ بنایا تھا یعنی اسے برائے راست چلانے کے بجائے بالواسطہ طریقے سے مقامی عمائدین کی مشاورت اور کوارڈی نیشن کے ذریعے چلایا اور وقت نے ثابت کیا کہ ان کا فیصلہ کافی حد تک درست تھا۔اب آتے ہیں بین الاقوامی صورت حال کی جانب‘غزہ کا مسئلہ طول پکڑ چکا ہے اور مستقبل قریب میں اس کا کوئی حل نکلنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی؛ بھارت میں مودی سرکار نے بھی کشمیریوں کے ساتھی وہی سلوک روا رکھا ہے کہ جو اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے دونوں طرف مسلمانوں کے خلاف کاروائیاں ہو رہی ہیں اور ان کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ یوکرائن کی جب تک امریکہ ہلہ شیری کرتا رہے گا اور اسی طرح جب تک تائیوان کو امریکہ تھپکی دیتا رہے گا‘کسی وقت بھی یہ دنیا تیسری عالمگیر جنگ کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس وقت دنیا میں صرف چین کی قیادت وہ واحد قیادت ہے کہ جس کی تاریخ پر گہری نظر ہے اور اس نے اپنے ملک کو سپر پاورز کے آپس کے جھگڑوں اور جھمیلوں سے دور رکھ کر اپنی تمام تر توجہ اپنی تعلیم‘ سائنس اور معاشی و اقتصادی ترقی کی طرف مبذول کی ہوئی ہے سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی نے مختلف شعبوں میں جو انتشار اور غلط فہمیاں پیدا کر دی ہیں‘ان کے تدارک کے واسطے کسی ریگولیٹری اتھارٹی کی ضرورت ہے یہ امر خوش آئند ہے کہ اس ضمن میں مناسب قانون سازی کا اہتمام کیا جانے والا ہے۔