فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام سے اس کے انتظامی ڈھانچے کا حلیہ ہی بدل گیا ہے فاٹا کا نظام اب بھی چل تو رہا ہے‘پرانے نظام میں خاصہ دار کی تعنیاتی کا سلسلہ یوں تھا کہ چونکہ ہر قبیلہ اپنے اپنے علاقے میں امن عامہ قائم رکھنے کا ذمہ دار تھا وہ اس مقصد کے واسطے علاقے کے انتظامی سربراہ یعنی پولیٹکل ایجنٹ کے ڈسپوزل پر اپنے قبیلے کے چند افراد بطور سکیورٹی گارڈ فراہم کر دیتا جو اس علاقے سے گزرتی ہوئی سڑکوں کی بھی حفاظت کرتے اور دیگر جرائم کو بھی نہ ہو ے دیتے اور اور اگر ان کی جغرافیائی حدود میں کوئی جرم ہوتا تو وہ بھی سزا کے مستحق قرار دئیے جاتے اس‘نظام کو collective territorial tribal responsibility یعنی اجتماعی قبائلی ذمہ داری کہا جاتا تھا‘ خاصہ دار کی ریٹائرمنٹ یا جسمانی معذوری کی صورت میں متعلقہ قبیلہ اس کی جگہ دوسرا فرد ڈیوٹی کے واسطے پولیٹکل ایجنٹ کے حوالے کرتا خاصہ دار کو ماہانہ تنخواہ دی جاتی ‘ فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم ہونے کے بعد چونکہ پرانا سسٹم یکسر بدل گیا ہے‘لہٰذا اب خاصہ داری نظام بھی تبدیل ہو چکا ہے اب وہ دیگر سرکاری ملازمین کی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے حقدار بھی بن گئے ہیں یہ بات البتہ طے کرنا باقی ہے کہ کیا وہ سسٹم بہتر تھا جو فاٹا کو خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم کرنے سے پہلے وہاں لاگو تھا یا نیا نظام اس سے بہتر ہے ارباب اقتدار نے فاٹا میں پولیس سٹیشن بھی قائم کر دئیے ہیں پولیٹیکل ایجنٹ کو اب ڈپٹی کمشنر کہا جانے لگا ہے۔اب ہم بعض اہم عالمی اور قومی معاملات کا ایک ہلکا سا تجزیہ کرتے ہیں۔وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ کہنا بجا ہے کہ لوگوں نے کرپشن کو بری چیزسمجھنا چھوڑ دیا ہے اور ملک میں ٹیکس چوری کو کرپشن نہیں تصور کیا جا رہا نہ ارباب اقتدار حصہ بقدر جثہ کو مد نظر رکھ کر ٹیکسوں کی وصولی کا کوئی فول پروف نظام بنا رہے ہیں اور نہ ٹیکس دہندگان اپنی صحیح آمدنی ڈکلئیر کر رہے ہیں۔
الٹا ان کے انکم ٹیکس ایڈوائزر قانونی موشگافیوں کے بل بوتے پر ان پر لگے ہوئے درست ٹیکس کی ادائیگی سے بھی ان کی جان چھڑا رہے ہیں کئی ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ اگر ملک میں standard of living tax نافذ کر دیا جائے اور جو افراد محل نما بنگلوں میں رہتے ہیں اور لگژری گاڑیوں میں پھرتے ہیں اور سال میں کئی کئی مرتبہ یورپ امریکہ اور عرب امارات جاتے ہیں‘یا جن کے بال بچے ملک کے اندر ان سکولوں میں پڑھتے ہیں کہ جن کی فیس ڈالروں میں وصول کی جاتی ہے یا وہ پھر یورپ یا امریکہ میں زیر تعلیم ہیں ان سے بھاری ٹیکس وصول کیا جائے‘ ان کے اخراجات کے دستاویزی ثبوت چونکہ موجود ہیں لہٰذا ان پر ٹیکس لگانے میں زیادہ تگ و دو کی بھی ضرورت نہیں ہو گی اس سے بڑی نا انصافی ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ فرد جو سائیکل بھی خریدنے کی مالی استطاعت نہ رکھتا ہو ٹیکس کے نفاذ کی بابت اس سے بھی ا تنا ٹیکس وصول کیا جائے جو اس فرد سے ریکور کیا جاتا۔ ہے کہ جو مرسڈیز گاڑی میں گھومتا ہے کوئی بھی ملک ریونیو کی خاطر خواہ تعداد کے بغیر چل نہیں سکتا اور ریونیو کو ٹیکسوں کی جنریشن ٹیکسوں کے نفاز کے بغیر نا ممکن ہے۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور یہ بھی سچ ہے کہ اس میں حرف آخر بھی نہیں ہوتا۔ کل کے حریف آج کے دوست بھی بن سکتے ہیں اور جو آج سیاسی حلیف ہوں وہ کل سیاسی حریفوں کی قطار میں بھی شامل ھو سکتے ہیں۔ گزشتہ بدھ کی شب اسلام آباد میں جے یو آئی کے سربراہ کی رہائش گاہ پر سیاست دانوں کا جو اجتماع ہوا وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا ہم نے اوپر کی سطور میں ذکر کیا ہے