گزشتہ چند برسوں میں وطن عزیز کے تمام صوبوں میں یونیورسٹیوں کی تعداد میں دن دوگنااوررات چوگنا اضافہ ہوا ہے پر سوال یہ ہے کہ کیا جو تعلیم وہ فراہم کر رہی ہیں اس کے معیار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے یا نہیں‘ اس کا جواب نفی میں ملتا ہے کیونکہ وقتاً فوقتاً اس ضمن میں عالمی سطح پر جو سروے رپورٹیں چھپ رہی ہیں ان کے مطالعے سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ وطن عزیز کی شاید ہی کوئی ایسی یونیورسٹی ہو کہ جس کا شمار تعلیمی لحاظ سے دنیا کی چند بہترین درسگاہوں میں ہوتا ہو اور یہ بات اس ملک کے تمام علم دوست محبان وطن کے واسطے ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے کوئی بھی اس کی وجہ ہو اس پر متعلقہ حکام بالا کو سنجیدگی سے غور کر کے اس کا حل نکالنا بہت ضروری ہے۔ ان ابتدائی کلمات کے بعد چند دوسری اہم قومی اور عالمی خبروں کا ایک ہلکا سا جائزہ بے جا نہ ہوگا۔ فضاکو ہر قسم کی آلودگی سے پاک صاف رکھنے اور مختلف قسم کی کیمیائی گیس کے اخراج سے بچانے کے لئے حکومت نے ملک میں الیکٹرک بس سروس چلانے کا جو منصوبہ بنایا ہے اس کے پہلے مرحلے میں چند دنوں میں وفاقی دارالحکومت میں الیکٹرک بس سروس کا اجرا ہونے جا رہا ہے‘چین نے اس ضمن میں الیکٹرک بسوں کی ایک بڑی کھیپ پاکستان کو فراہم کر کے ایک مرتبہ پھر اپنی پاکستان دوستی کا مظاہرہ کیا ہے‘ الیکٹرک بس سروس کی گاڑیاں ایک آدھ ماہ میں ملک کے دوسرے شہروں کی سڑکوں پر بھی عوام کو دوڑتی نظر آئیں گی۔ چین نے ایک مرتبہ پھر امریکہ کو سخت الفاظ میں متنبہ کیا ہے کہ وہ ون چائنا کی حقیقت کو تسلیم کرے اور تائیوان کی ہلہ شیری چھوڑ دے کہ ایسا کر کے وہ چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے‘ چین نے امریکہ کی کانگریس کے اراکین کے مجوزہ دورہِ تائیوان پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس دورے کو منسوخ کیا جائے۔ عالمی عدالت انصاف نے 13/2 کی اکثریت سے اسرائیل کو رفح میں جارحیت بند کرنے کا حکم دے کر ایک نہایت ہی اچھا قدم اٹھایا ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔
کرغستان کے پاکستان میں تعنیات سفیر نے بالکل بجا کہا ہے کہ حال ہی میں ان کے ملک میں طلباء کے خلاف جو ہنگامے ہوئے‘ اس کے لئے کافی حد تک سوشل میڈیا کی مادر پدر آزاد نیوز کوریج کو ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے‘ نہ جانے ارباب اقتدار عوام کے سنجیدہ طبقے کی جان کو سوشل میڈیا کی لعنت سے کیوں نہیں چھڑاتے۔ محدود مالی وسائل کے باجود اگلے روز حکومت خیبرپختونخوا نے مالی سال 2024_25ء کے لئے جو بجٹ پیش کیا ہے وہ قابل ستائش ہے کیونکہ اس میں عوام دوست رفاعی منصوبوں کے واسطے حتی المقدور رقم فراہم کی گئی ہے۔ کرکٹ نے تو ہمارے سامنے کئی رنگ بدلے ہیں‘ کسی زمانے میں اسے جنٹل مین گیم gentleman game کہا جاتا تھا اور صرف پانچ دنوں پر محیط ٹیسٹ میچ کی شکل میں اسے کھیلا جاتا‘پھر اس میں ون ڈے کرکٹ نے قدم جمایا جو ففٹی ففٹی اوورز پر محیط تھا اس کے بعد ٹونٹی ٹونٹی میچ کا زمانہ آ یا‘ ان تبدیلیوں کے ساتھ اس گیم میں پیسوں کی ریل پیل بھی شروع ہوگئی اور سٹہ بازی بھی اس کا جز بن گئی‘ہمیں یاد ہے جب ففثی ففٹی کا چلن عام ہونے لگا تھا تو کئی پرانے سینئر کھلاڑیوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس سے کرکٹ کا کھیل مالی کرپشن کا شکار ہو جائے گا اور یہ جنٹلمین گیم نہیں رہے گا‘ سفید پتلون شوز اور سفید شرٹ جو کبھی اس گیم کا خاصہ ہوا کرتی تھی اب رنگ برنگی یونیفارم میں بدل چکی ہے ‘ ہم نے دیکھا کئی کھلاڑی میچ فکسنگ اور بال ٹیمپرنگ میں پکڑے گئے اور کرکٹ سٹہ بازوں اور جوا بازوں کی نذر ہونے لگی۔ ویسے واقفان کرکٹ صرف ٹیسٹ کرکٹ کو ہی مستند کرکٹ قرار دیتے ہیں‘ جس میں کرکٹ کے کھلاڑیوں کی بلے بازی اور بولنگ کی استعداد کا درست اندازہ ہوتا ہے‘ اس کے علاوہ کرکٹ کی دوسری اقسام کو وہ ڈنڈا ماری سے تعبیر کرتے ہیں جس میں ہر بال کو میرٹ پر کھیلنے کے بجائے اس پر ہٹ لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہ امر توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں 40 فیصد کے لگ بھگ آ بادی کی زندگی خط غربت سے نیچے ہے جسے صحت تعلیم اور معیار زندگی سے محرومی کا سامنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔