عالمی عدالت کے حالیہ فیصلے کو اپنی جوتی کی نوک پر مار کر اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسے نہ تو مسلم دنیا کی کوئی پرواہ ہے اور نہ کسی سپر پاور کی خفگی کا ڈر ‘اگر اقوام متحدہ نے اس کو عالمی عدالت کے اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں ذرا سی بھی نرمی دکھائی تو اس کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں مل جائے گی اور اس کا بھی لیگ آف نیشنز کی طرح خاتمہ ہو جائے گا ۔جہاں تک امریکہ کی اسرائیل دوستی کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں عرض ہے کہ1960 ءکے امریکی صدارتی الیکشن کے بارے میں جب کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو سے پوچھا گیا تھا کہ وہ نکسن اور کنیڈی میں سے کس کو پسند کرتے ہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر ایک نہایت معنی خیز جواب دیا تھاکہ ان دونوں کی مثال دو جوتوں کے مترادف ہے کہ جو کسی نے پہنے ہوئے ہوں ‘ان میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ امریکہ پر ایک پارٹی کی حکومت ہے جس کا نام ہے صہیونی پارٹی ‘اس کے دو ونگز ہیں‘ ایک کا نام ہے ڈیمو کریٹک پارٹی جو اس کا ہارڈ ونگ ہے اور دوسرے ونگ کا نام ہے ری پبلکن پارٹی جو اس کا نرم یعنی سافٹ ونگ ۔کاسترو کے ان کلمات کے بعد چند دیگر اہم قومی اور عالمی معاملات پر ایک نظر ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ زندگی کے کسی شعبے پر آپ ایک تنقیدی نظر دوڑائیں تو آپ محسوس کریں گے کہ ایک عرصے سے اب نابغے نہیں پیدا ہو رہے۔ پہلے ذرا کھیلوں کی دنیا دیکھ لیتے ہیں کیا آپ کو سکواش میں ہاشم خان ‘کرکٹ میں ڈانلڈ بریڈ مین‘ ہاکی میں دھیان چند اور فٹبال میں میرا ڈونا کے ہم پلہ کوئی کھلاڑی دکھائی دیتا ہے۔ فلم اداکاری میں دلیپ کمار ‘پرتھوی راج ‘مارلن برانڈو ‘سر الیور لارنس‘ مدھو بالا انگرڈ برگمن کے معیار کے لوگ نظر نہیں آ رہے ۔گلوکاری میں نورجہان ‘لتا‘ رفیع‘ مکیش استاد بڑے غلام علی خان جیسا فنکار دکھائی نہیں دیتا ۔موسیقاروں کی صف میں نوشاد علی شنکر جے کشن ‘خورشید انور ‘ فلمی نغمہ نگاروں میں شکیل بدایونی ‘شیلندرا اور حسرت جے پوری جیسے افراد نہیں مل رہے ۔اقوام متحدہ کے ترجمان کا یہ بیان امریکہ کے منہ پر ایک طمانچہ ہے کہ تائیوان چین کا ایک صوبہ ہے یہ امر تشویش ناک ہے کہ ملک میں تحمل‘برداشت ‘ رواداری کے جذ بے بتدریج کمزور پڑ رہے ہیں اور پر تشدد انتہا پسندی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ملک کے سماجی ڈھانچے کو نفرت انگیز اور تعصبات پر مبنی رویوں نے بری طرح متاثر کیا ہے‘ آج وقت کا تقاضا ہے کہ مذ ہبی آ ہنگی کے واسطے مذہبی رہنما اپنا کردار موثر انداز میں ادا کریں۔عیدالاضحیٰ کی آمد آ مد ہے اور پھر اس کے چند روز بعد ہی محرم الحرام شروع و جائے گا۔ اس مقدس ماہ میں بد قسمتی سے ہر سال ملک دشمن شر پسند عناصر امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ملک کے امن عامہ کے اداروں کو ابھی سے ان عناصر کی سرکوبی کے واسطے حفظ ما تقدم کے طور پر مناسب اقدامات اٹھانے ہوں گے اور ملک کے حساس علاقوں میں فول پروف حفاظتی انتظامات یکم محرم سے لے کر چہلم تک لینے ہوں گے ۔اس ضمن میں ملک کے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی پولیس کو اپنے دائرہ اختیار میں موجود ہر مکتبہ فکر کے مذہبی رہنماوں کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ذاتی رابطے میں رہنا ضروری ہوتا ہے۔دوسری جانب کرغستان کے پاکستان میں تعینات سفیر نے بالکل بجا کہا ہے کہ حال ہی میں ان کے ملک میں طلباء کے خلاف جو ہنگامے ہوئے‘ اس کے لئے کافی حد تک سوشل میڈیا کی مادر پدر آزاد نیوز کوریج کو ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے‘ نہ جانے ارباب اقتدار عوام کے سنجیدہ طبقے کی جان کو سوشل میڈیا کی لعنت سے کیوں نہیں چھڑاتے ۔ محدود مالی وسائل کے باجود اگلے روز حکومت خیبرپختونخوا نے مالی سال 2024-25ءکے لئے جو بجٹ پیش کیا ہے وہ قابل ستائش ہے کیونکہ اس میں عوام دوست رفاعی منصوبوں کے واسطے حتی المقدور رقم فراہم کی گئی ہے ۔ کرکٹ نے تو ہمارے سامنے کئی رنگ بدلے ہیں‘ کسی زمانے میں اسے جنٹل مین گیم کہا جاتا تھا اور صرف پانچ دنوں پر محیط ٹیسٹ میچ کی شکل میں اسے کھیلا جاتا ‘پھر اس میں ون ڈے کرکٹ نے قدم جمایا جو ففٹی ففٹی اوورز پر محیط تھا اس کے بعد ٹونٹی ٹونٹی میچ کا زمانہ آ یا‘ ان تبدیلیوں کے ساتھ اس گیم میں پیسوں کی ریل پیل بھی شروع ہوگئی اور سٹہ بازی بھی اس کا جز بن گئی۔
‘ہمیں یاد ہے جب ففثی ففٹی کا چلن عام ہونے لگا تھا تو کئی پرانے سینئر کھلاڑیوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس سے کرکٹ کا کھیل مالی کرپشن کا شکار ہو جائے گا اور یہ جنٹلمین گیم نہیں رہے گا‘ سفید پتلون شوز اور سفید شرٹ جو کبھی اس گیم کا خاصہ ہوا کرتی تھی اب رنگ برنگی یونیفارم میں بدل چکی ہے ‘ ہم نے دیکھا کئی کھلاڑی میچ فکسنگ اور بال ٹیمپرنگ میں پکڑے گئے اور کرکٹ سٹہ بازوں اور جوا بازوں کی نذر ہونے لگی۔ ویسے واقفان کرکٹ صرف ٹیسٹ کرکٹ کو ہی مستند کرکٹ قرار دیتے ہیں‘ جس میں کرکٹ کے کھلاڑیوں کی بلے بازی اور بولنگ کی استعداد کا درست اندازہ ہوتا ہے ‘ اس کے علاوہ کرکٹ کی دوسری اقسام کو وہ ڈنڈا ماری سے تعبیر کرتے ہیں جس میں ہر بال کو میرٹ پر کھیلنے کے بجائے اس پر ہٹ لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہ امر توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں 40 فیصد کے لگ بھگ آ بادی کی زندگی خط غربت سے نیچے ہے جسے صحت تعلیم اور معیار زندگی سے محرومی کا سامنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔