حکومتی فیصلوں کے ثمرآور نتائج

مقننہ نے پالیسیوں کو تشکیل دینا ہوتا ہے اورحکومتوں نے آئین کی روشنی میں ان پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانا ہوتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے اسے فیلڈ میں بیوروکریسی‘ پولیس اور سیکرٹریٹ میں سیکشن افسروں کی مدد درکار ہوتی ہے بالفاظ دیگر تان ان اہلکاروں پر ہی آ کر ٹوٹتی ہے جنکو ناقدین اکثر طنزاً نوکر شاہی بھی کہہ کر پکارتے ہیں قصہ کوتاہ اگر بیوروکریسی فرض شناس اور نیک افراد پر مشتمل ہو گی اور اس میں اگر عوامی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوگا تو عوام سکھی رہیں گے اور اگر وہ ان خاصیتوں سے خالی ہو گی تو عوام کو رتی بھر فائدہ نہ ہوگا بھلے حکومت نے ان کے لئے کتنی ہی عوام دوست پالیسی کیوں نہ تشکیل دی ہو یہ جو تجزیہ نگار ملک میں اکثر گڈ گورننس کے فقدان کا رونا روتے رہتے ہیں تو ان کا اشارہ اس بات کی طرف ہوتا ہے کہ ہر محکمہ کا کارندہ اپنے فرائض منصبی دیانتداری اور محنت سے قانون کے 
تقاضوں کے مطابق پورا ادا نہیں کر رہا‘ بالفاظ دیگر جب تک سرکاری انتظامی مشینری جس میں سول اور پولیس دونوں آتے ہیں میں کام کرنے کے واسطے صحیح افراد کا چناؤ نہیں ہوگا گڈ گورننس کے حصول کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ہم من حیث القوم اخلاقیات کے فقدان کا شکار ہیں اور جب تک ہم اپنی اس کمزوری کا ازالہ نہیں کریں گے بات آگے نہیں بڑھے گی بھلے بہت ہی اچھا اور عوام دوست قانون حکومت وقت نے کیوں نہ بنایا ہو اگر اس پر عمل 
درآمد کرانے کا انتظام نہیں ہوگا تو اس قانون کے ثمرات سے عام آدمی مستفید نہیں ہو سکے گا بالفاظ دیگر فیلڈ پوسٹنگ یا دفاتر میں تعینات کرنے سے پیشتر سرکاری اہلکاروں پر سزا و جزا کا اطلاق بھی ضروری ہوگا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری انتظامی مشینری خصوصاً ان محکموں میں جن کا عوام کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے اور جن کا ان سے چوبیس گھنٹے واسطہ پڑتا ہے ان میں قابل افراد کو آگے لایا جائے۔ خدا لگتی تو یہ ہے کہ چند برس پہلے تک مرکز اور صوبوں میں صرف پبلک سروس کمیشن کے تحریری اور زبانی مقابلے کے امتحان۔ کے ذریعے بھرتی ہوا کرتی تھی تو تب تک تو حالات اتنے خراب نہ تھے کہ جتنے اسوقت سے خراب ہونا شروع ہوئے کہ جب کلیدی انتظامی عہدوں پر بھرتی اور تعیناتیاں سفارشوں پر ہونے لگیں وطن عزیز کی 
سول سروس میں سید فرید اللہ شاہ‘ غلام اسحاق خان‘ روئیداد خان‘ شیر افضل خان‘ محمد عبداللہ جیسے عوام دوست اور دیانتدار نابغے اس وقت کی پیداوار تھے جب سول سروسز میں بھرتی صرف اور صرف میرٹ پر ہوا کرتی تھی اس وقت جواں سال نسل کی اخلاقی تربیت کی بہت ضرورت ہے بلا شبہ ہمیں قابل اساتذہ اور مختلف پروفیشنلز درکار ہیں پر اس سے بڑھ کر ہمیں اچھے انسان بھی چاہئیں جن میں اخلاقیات کا فقدان نہ ہو فلسطین کے مسئلے پر یورپی یونین کے ممالک کے رویوں اور پالیسیوں میں نمایاں تبدیلی دکھائی دے رہی ہے اور اب وہ کھل کر فلسطین کی اپنی علیحدہ ریاست کے قیام کی ضرورت کی بات کر رہے ہیں آئرلینڈ‘ سپین اور ناروے نے تو فلسطین کی علیحدہ ریاست کو تسلیم بھی کر لیا ہے لگ یہ رہا ہے کہ انجام کار ان فلسطینیوں کا خون رنگ لے آیا ہے جو برسوں سے اپنی علیحدہ ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔