موسم گرما کا عروج ہے اور سورج سوا نیزے پر ہے‘کسی منچلے سے جب یہ پوچھا گیا کہ اسے سردی کا موسم پسند ہے یا گرمی کا‘ تو اس نے جواب دیا‘ مجھے تو بس بہار بسند ہے پر بھلا ہو اس موسمیاتی تبدیلی کا امسال تو بہار کے موسم کے انتظار میں لوگوں کی آنکھیں سفید ہو گئیں لگتا ہے اسے سردیاں کھا گئیں جیٹھ کے مہینے کے چند ہی دن باقی ہیں‘اس کے بعد ھاڑ کا پورا گرم مہینہ پڑا ہے جو ہر سال خشک ہوا کرتا تھا گو اب کی دفعہ موسمیاتی تبدیلی کے کارن ہو سکتا ہے گلیشئرز کے پگھلنے کی وجہ سے یہ ماہ کہیں سیلاب کا مہینہ نہ بن جائے اس کے بعد ساون آئے گا‘جو بارشوں کا ماہ ہوتا ہے۔ساون کے بعد بھادوں کے ماہ میں چلچلاتی دھوپ کے بارے میں مشہور ہے کہ اس سے گدھے جیسا سخت چمڑے والا جانور بھی پناہ مانگتا ہے‘ اس خطے میں بسا اوقات اتنا زیادہ حبس ہو جاتا ہے کہ بقول شاعر لوگ اس سے اتنے تنگ ہو جاتے ہیں کہ وہ پھر لو کی دعا مانگتے ہیں البتہ بھادوں کے ماہ میں شام کے بعد موسم میں خنکی پیدا ہو نے لگتی جو سردی کے موسم کی نوید سناتی ہے۔ ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد درج ذیل اہم نوعیت کے قومی اور عالمی معاملات پر حسب معمول ایک طائرانہ نظر ڈالنے میں کوئی قباحت نہیں۔گورنر سندھ کا یہ اقدام قابل تعریف ہے کہ جس کے تحت انہوں نے کراچی کے سکولوں کے طلباء کے واسطے ناشتے کا فری بندوبست کر دیا ہے اور یہ کہ اس کا دائرہ پورے سندھ میں پھیلایا جائے گا ۔دنیا کے ہر سوشل ویلفیئر سٹیٹ جیسا کہ انگلستان ہے وہاں سکول کے بچوں کو روزانہ فری دودھ پلایا جاتا ہے‘خدا کرے کہ وطن عزیز میں ارباب اقتدار اسی طرز پر جہاں فری لازمی پرائمری ایجوکیشن کا اہتمام کریں وہاں ان سکولوں کے بچوں اور بچیوں کے واسطے فری دودھ پلانے کا بھی بندوبست کیا جائے اور یہ کام ملک میں ہر پرائمری سکول میں ہوتا نظرآئے‘یہ خبر تشویشناک ناک ہے کہ نیٹو افواج روسی سرحد کے قریب جمع ہو رہی ہیں اور روس پر ممکنہ حملے کی تیاری کر رہی ہیں۔ امریکہ بدستور روس کے خلاف یوکرائن کی ہلہ شیری کر رہا ہے۔ اگر روس پر حملہ کیا جاتا ہے تو تیسری جنگ عظیم چھڑ سکتی ہے۔ اس بات میں تو دو آ راء ہو ہی نہیں سکتیں کہ ہم جیسے ترقی پذیر ملک میں ایک دن چھٹی کرنے سے ملکی معشیت کو کس قدر نقصان ہوتا ہے‘ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ماضی میں اپنی وزارت عظمیٰ کے ایک دور میں میاں محمد نواز شریف نے سالانہ مختلف مواقع پر دی جانے والی چھٹیوں کی فہرست سے کافی چھٹیوں کو ختم کر دیا تھا جس کو ملک کے معاشی اور مالیاتی حلقوں نے کافی سراہا تھا‘ ان حقائق کی روشنی میں گزشتہ روز تجارتی حلقوں سے تعلق رکھنے والے ایک فرد کا یہ بیان کافی وزنی لگا کہ یوم تکبیر کی چھٹی سے ملک کو ایک ارب ڈالر سے زائد مالی نقصان ہوا‘ آج کل کے معاشی حالات میں پہلے سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے‘ زیادہ چھٹیوں سے برآمدات متاثر ہوتی ہیں‘یاد رہے کہ اس وقت کاروباری مندے سے ٹیکسٹائل کی برآمدات میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ لہٰذا ضروری ہو گیا ہے کہ معاشی بحالی کے ایجنڈے کے تحت غیر ضروری چھٹیوں کو کم کرنے کیلئے فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔
وطن عزیز میں بجلی کے استعمال کو ریگولیٹ کرنے کے واسطے بعض فوری اور بعض کثیر المدتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے‘ دنیا بھر میں تمام نجی اداروں پلازوں مارکیٹوں میں معمولات زندگی سورج کی پہلی روشنی سے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر شام ڈھلتے ہی بند ہو جاتے ہیں جس سے بجلی کے استعمال میں خاطر خواہ کمی واقع ہو جاتی ہے‘بد قسمتی سے اس قسم کا چلن وطن عزیز میں عنقا ہے نہ کاروباری حلقے اس قسم کا چلن اپنانے کے لئے تیار ہیں اور نہ انتظامیہ ایسے اقدامات اٹھانے کی صدق دل سے کوشش کرتی ہے کہ اس قسم کا کاروباری ٹائم ٹیبل تجارتی مراکز پر لاگو کیا جائے کہ بجلی کا استعمال کم سے کم ہو اور تمام تجارتی کام کاج سورج کی روشنی میں ہی سرانجام ہو سکیں‘کثیر المدتی پروگراموں میں ڈیموں کی تعمیر کا ایک جامع پروگرام کو تشکیل دے کر اسے کم سے کم مدت میں پایہ تکمیل تک بہنچانے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔