موسمیاتی تبدیلی کی کارستانیاں

کسی زمانے میں ایک فلم بنی تھی جس کا نام تھا” قیدی “اس میں ایک ایسا سین بھی تھا کہ جس میں پاگل خانے میں چند پاگلوں کو قوالی گاتے دکھایا گیا تھا اور اس قوالی کا ایک شعر یہ تھا”سخت سردی پڑ رہی تھی اور تھا مہینہ جون کا “آج موسمیاتی تبدیلی نے مندرجہ بالا شعر کو سچ ثابت کر دکھایا ہے کیونکہ گرمی کے مہینے بعض دن کبھی بادلوں سے اتنے ٹھندے ہو جاتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسا کہ دسمبر کا مہینہ ہو نہ امسال اورنہ سال گزشتہ میں پرانی والی گرمی رہی اور نہ سردی اور بہار کا مہینہ تو جیسے غائب ہی ہو گیا ‘بہار کو تو لگتا ہے کہ جیسے سردی کھا گئی ہو ‘ اس موسمیاتی تبدیلی کے پیش نظر کیلنڈر بدلنے پڑیں گے‘ اب سردی اور گرمی کے مہینوں والے وہ پرانے والے نام نہیں رہیں گے ‘پرانے کیلنڈر میں تو بہار کا موسم فروری کے وسط سے اپریل کے وسط تک عرصے پر محیط ہوتا تھا ‘ اس کے بعد گرمی 16 اکتوبر تک رہتی اور اس کے بعد پھر موسم سرما 14 فروری تک ‘ اب تو یہ سب کچھ تلپٹ ہو کے رہ گیا ہے‘ ایک دوسری چیز اس موسمیاتی تبدیلی کے کارن پیدا ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک پل میں گرمی کی شدت ہوتی ہے اور پھر آناً فاناً دوسرے پل میں سردی کا سماں پیدا ہو جاتا ہے‘ جس سے کئی لوگ نزلہ کھانسی کا شکار ہو رہے ہیں فضا میں کسی نہ کسی وائرس کی موجودگی رہتی ہے‘ جس نے ہر آدمی کو ماسک پہننے پر مجبور کر دیا ہے ‘ویسے ماسک کا استعمال وطن عزیز کے باسیوں کے لئے ایک blessing in disguise یعنی بھیس میں برکت سے کم نہیں کیونکہ اس کو پہن کر باہر نکلنے سے انسان دیگر کئی بیماریوں ‘گرد و غبار اور گلے اور سینے کی بیماریوں اور کئی دوسری وباﺅں سے بھی بچ جاتا
 ہے کہ جن کے وائرس فضا میں پائے جاتے ہیں اور جن سے گلے اور پھیپھڑوں کی کئی بیماریاں پھوٹتی رہتی ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں یوکرائن کے تنازعے پر جو کانفرنسں آئندہ چند روز میں ہونے والی ہے اس کا بائیکاٹ کر کے چین نے ایک اچھا اقدام اٹھایا ہے کیونکہ اس میں روس کو شرکت کی دعوت نہ دے کر اس کے منتظمین نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں غیر جانبدارانہ رویہ نہیں رکھتے۔ پشاور کے فنون لطیفہ کے حلقوں نے اس وقت نہایت ہی خوشی کا اظہار کیا تھا جب چند برس قبل حکومت پختونخوا نے پشاور شہر میں واقع دلیپ کمار اور راج کپور کی جائے پیدائش کو نیشنل ہیریٹیج ڈکلیئر کر کے انہیں میوزیم بنانے کا اعلان کیا تھا اور اس منصوبے پر زورو شور سے کام بھی شروع کر دیا تھا ‘پر کچھ ہی عرصے کے
 بعد اس پر کام کرنا چھوڑ دیا گیا ہے اور اب تو خدشہ اس بات کا ہے کہ اگر ان گھروں کی مرمت نہ کی گئی تو بہت جلد وہ منہدم ہو جائیں گے اس لئے بہت ضروری ہے کہ اس منصوبے کو جلد سے جلد مکمل کیا جائے۔ وزیر اعظم نے بجا کہا ہے کہ تمباکو نوشی کے خاتمے کے واسطے اس کی پیداوار اور استعمال دونوں کو کم کر نا ہوگا‘ حکومت کا یہ اقدام بھی بجا ہے جس کے تحت سگریٹ پر ٹیکس کو 150 فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے ۔ سینما کلچر کے شیدائی اس زمانے کو یاد کرتے ہیں جب کہ جب وطن عزیز میں سینما گھروں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی تھی ‘گو کہ ایک نئے انداز میں سینما کلچر کی نشاة ثانیہ کی کوشش تو کی جا رہی ہے پر جب تک سینما کے ٹکٹوں کی قیمت میں مناسب کمی نہیں لائی جائے گی سینما بینوں کا رخ سینما گھروں کی طرف نہیں بدلے گا‘ پشاور شہر اور صدر کی ہی مثال لے لیجئے گا درجن سے زیادہ سینما گھر آباد تھے جن سے ہزاروں افراد کی روزی بھی جڑی ہوئی تھی‘ اب یہ سب کچھ قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔