قناعت کی چند ایک اعلیٰ مثالیں 


ہم قرون اولی کی بات نہیں کرتے ہم آج کے مادہ پرست دور کی بات کر رہے ہیں کہ جس کے بارے میں ایک شاعر نے یہ کہا ہے کہ نہ یہ دنیا اس کی ہے نہ یہ دنیا اس کی ہے  جس کے ہاتھ میں چابی ہے دنیا اس کی ہے‘دولت کی  چابی سے تشبیہ کی گئی ہے۔
 دولت کی بے پناہ طاقت کا مظاہرہ آپ روزانہ زندگی کے ہر شعبے میں دیکھتے ہیں اس کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے ایک دوڑ لگی ہوئی ہے‘ وہ لوگ واقعی بے مثال ہوتے ہیں جو اس کی آ لودگی سے اپنا دامن بچائے رکھتے ہیں‘ میخانے میں داخل ہو کر بھی اگر کوئی خم و ساغر کوہاتھ نہ لگائے اور اسراف کا موقع ہاتھ آنے پر بھی قناعت کرے تو وہ یقینا قابل ستائش ہوتاہے۔ اکثر ارباب اقتدار سرکار کے مال پر اللے تللے کرتے ہیں۔
 آفرین ان پر ہے جو ہاتھ میں اقتدارہونے کے باوجود قناعت کا وطیرہ اپناتے ہی۔‘ قائد اعظم کے ایک اے ڈی سی کے مطابق گورنر جنرل ہاؤس کراچی میں کابینہ کی میٹنگ سے ایک دن پہلے جب اس نے قائد اعظم سے یہ پوچھا کہ سر میٹنگ کے شرکا ء کے واسطے چائے کا بندوبست کیا جائے یا کافی کا تو انہوں نے کہا کہ کیا یہ لوگ گھر سے ناشتہ کر کے نہیں آئیں گے۔
 اس کے بعد جب کبھی بھی گورنر جنرل ہاؤس میں میٹنگ ہوتی کہ جس کی صدارت بانی پاکستان نے کرنا ہوتی تو شرکاء کے واسطے میز پر صرف سادہ پانی رکھا جاتا۔
 چین میں بھی ماؤزے تنگ کے دور حکومت سے لے کر آج تک اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں شرکاء کی خاطر تواضع صرف سبز چائے سے کی جاتی ہے‘ اس طرز عمل کے بر عکس ہمارے بعض ارباب اقتدار کی زیر صدارت ہونے والی میٹنگز میں فائیو سٹار ہوٹلوں سے چائے اور سنیکس snacks منگوائے جاتے رہے ہیں‘جن پر اچھی خاصی رقم اڑ جاتی تھی ماؤزے تنگ نے ایک مرتبہ بیجنگ میں ایک کارخانے کے دورے کے دوران دیکھا کہ اکثر مزدور ننگے پاؤں کام کر رہے ہیں ان کے پوچھنے پر کہ اس کی وجہ کیا ہے انہیں بتلایا گیا کہ ان کی جیب ان کو جوتے خریدنے کی اجازت نہیں دیتی‘اس پر ماؤزے تنگ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ بھی اب اس وقت تک نیا جوتا نہیں خریدیں گے کہ جب تک اس کارخانے میں کام کرنے والے تمام مزدور اس قابل نہیں ہو جاتے کہ وہ اپنے لئے جوتے خرید سکیں‘ چنانچہ اس کے بعد جب کبھی بھی ماؤ زے تنگ کا جوتا کسی جگہ سے پھٹتا تو اسے موچی سے گنڈوا لیا جاتا اور وہ نیا جوتا نہ خریدتے اور یہ عمل ایک لمبے عرصے تک چلتا رہا۔
آج کل اس قسم کی قناعت کہیں آپ نے دیکھی ہے‘الیکٹرانک میڈیا کو اگر دیکھا جاے تو آ ج کل مختلف کھیلوں کے نامور کھلاڑی اب کھلاڑی کم اور اشتہاراتی  ایجنسیوں کے ماڈل زیادہ نظر آتے ہیں جو  عوام کو  تجارتی کمپنیوں کی مصنوعات خریدنے کی ترغیب دیتے نظر  آ تے ہیں‘کم و بیش اسی نوعیت کا  کام  فلموں  اور  ٹیلی ویژن میں کام کرنے والے اداکار بھی کر رہے ہیں ہم نے تو وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب برصغیر کے نامور اداکار دلیپ کمار نے ایک  تجارتی کمپنی کی کروڑوں روپے کی آفر اس کی ایک مصنوعات کی پبلسٹی  کرنے کے اشتہار میں کام کر نے سے انکار کرتے ہوئے  یہ کہہ کر ٹھکرا دی تھی کہ وہ اداکار ہے کسی اشتہاری کمپنی کا ماڈل تھوڑی  ہے۔  بھارت کے حالیہ الیکشن میں بی جے پی کو ایک مرتب پھر اقتدار ملنے پر بجز اس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ بھارتی سیاست انتہا پسندی کا کس قدر شکار ہو چکی ہے۔