چینیوں کی ذہانت 

بیجنگ کی آدھیآبادی جوکروڑوں میں بنتی ہے‘روزانہ اپنے معمولات زندگی نبٹانے اپنے گھروں سے دفاتر اور روزگار کمانے کی جگہوں پرآنے جانے کے لئے سائیکل استعمال کرتی ہے چین میں جو سڑک بھی بنتی ہے اس کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف میں سائیکل سواروں کے واسطے علیحدہ سائیکل ٹریک بھی تعمیر کیا جاتا ہے تاکہ وہ بغیر کسی روڈ ایکسیڈنٹ کے خوف کے سائیکل چلا سکیں‘یہی وجہ ہے کہ وہاں موٹاپے کی بیماری کم ہے اور عام آدمی صحت مند ہے‘ نیز سائیکلنگ کی وجہ سے عوام کاربن کے اخراج سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بھی بچ رہے ہیں اورتو اوروہاں توانائی کی کمی کا بھی کویی بحران نہیں‘ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے ارباب اقتدار کی سمجھ میں یہ چھوٹی سی بات کیوں نہیں آتیک‘یا وہ ملک کے ہر شہر میں سائیکلنگ کو فروغ نہیں دے سکتے تھے‘سائیکل چلانے کے کئی فوائد ہیں۔‘شکر ہے کہ سی ڈی اے اسلام آباد والوں کو اس کی اہمیت کا اب احساس ہوا ہے اور انہوں نے وفاقی دارالحکومت میں سائیکلنگ کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے سائکل سواروں کے واسطے سڑکوں میں علیحدہ ٹریک بنانے کا اعلان کیا ہے‘ کیا ہی اچھا ہو اسی قسم کے کلچر کو ملک کے دیگر شہروں میں بھی فروغ دیا جائے‘سائیکل کے روزانہ استعمال سے انسان کئی بیماریوں مثلاً امراض قلب‘شوگرہڈیوں اور جوڑوں کے درد سے بھی محفوظ رہتا ہے۔وطن عزیز میں جتنی برق رفتاری سے یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے کاش کہ اتنی تیزی سے ان میں فراہم کی جانے والی تعلیم کے معیار کی طرف بھی توجہ دی جاتی کیونکہ عالمی درجہ بندی میں دنیا کی 300 بہترین جامعات میں ایک بھی پاکستانی نہیں ہے۔بعض سیاسی مبصرین کے اس تجزئیے میں کافی وزن ہے کہ بغیر گولی چلائے تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے جس میں مغرب شکست کھا سکتا ہے‘یوکرین کی جنگ دو سال سے جاری ہے‘مشرق وسطیٰ میں آ گ بھڑک رہی ہے‘ چین اپنے غلبے کا خواہاں ہے جب کہ روس اپنے کا‘چین بحر الکاہل کے ساتھ افریقہ اور ایشیا کے معدنیات سے مالامال ممالک پر غلبہ چاہتا ہے‘ ایران مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا خاتمہ چاہتا ہے‘ترکی اور قطری حمایت یافتہ اخوان المسلمین عرب دنیا ہر تسلط چاہتے ہیں۔گولہ بارود کی جنگ کی بجائے شدید تزویراتی مقابلہ جاری ہے‘ کوئی مانے یا نہ مانے کوئی بھی ملک جنگ میں امریکہ اور نیٹو کو مات نہیں دے سکتا‘اس لئے ان کو معاشی شکست دی جا رہی ہے۔‘ چین کے بیلٹ اور روڈ کے پروگرام تلے 140 ممالک میں سرمایہ کاری کی گئی ہے‘ جو دنیا کی 75 فیصد آبادی ہے آج کل ان قومی اداروں کی نجکاری کی بات کی جا رھی ہے جو قومی خزانے پر بوجھ ہیں پر خدا لگتی یہ ہے کہ عام آ دمی کو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ کہیں ان اداروں کو اونے پونے  داموں فروخت نہ کر دیا جائے‘ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نجکاری پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ہو۔ بھارت میں حالیہ الیکشن کے بعد کئی مبصرین کے خیال میں مودی کو اگلی حکومت کی سربراہی کا کوئی اخلاقی اور سیاسی حق حاصل نہیں ہے‘پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب نے بجا فرمایا ہے کہ ہمارے معاشر ے میں کوئی افسر صحیح کام کر ہی نہیں سکتا اصولی افسر کو سیاسی دباؤ کے تحت اعلیٰ افسران کام کرنے سے روک دیتے ہیں یا پھر ایسے افسر کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے کوئی اس پر سٹینڈ لینے والا نہیں ہوتا‘اسی وجہ سے ہمارے ادارے تباہ ہو رہے ہیں۔چمن بلوچستان میں مظاہرین پر فائرنگ ایک غیر دانشمندانہ فعل تھا ضلعی انتظامیہ اور پولیس افسران کی تربیت میں ان پر واضح کرنا ضروری ہوتا ہے کہ اگر کسی معاملے میں عوام الناس کا احتجاجی جلوس سڑکوں پر نکل آ ئے تو اس کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ کیسے شروع کیا جائے تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ان سے بات چیت کے بجائے ان پر ڈنڈا چلانے سے بات بنتی نہیں البتہ بگڑ ضرور جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔