دنیا بھر خاص طور پر پاکستان اور بھارت میں پکوانوں کے لیے ہری مرچوں کا استعمال کافی زیادہ کیا جاتا ہے، مگر یہ عادت موٹاپے کا شکار بنا سکتی ہے۔
یہ دعویٰ ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ہری مرچوں میں موجود ایک جز capsaicin عمومی صحت خاص طور پر کارڈیو میٹابولک صحت کے لیے مفید تصور کیا جاتا ہے۔
مگر ہری مرچوں کے زیادہ استعمال اور موٹاپے کے درمیان تعلق موجود ہے، خاص طور پر خواتین اور 60 سال سے زائد عمر کے افراد میں یہ خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں 20 سال یا اس سے زائد عمر کے 6138 افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔
یہ ڈیٹا 2003 سے 2006 کے دوران امریکا میں ہونے والے ایک غذائی سروے کے دوران اکٹھا کیا گیا تھا۔
ان افراد سے طرز زندگی کے عناصر جیسے جسمانی سرگرمیوں، غذائی عادات، تمباکو نوشی کے استعمال اور دیگر کے بارے میں تفصیلات حاصل کی گئیں۔
اس کے بعد یہ دیکھا گیا کہ ان افراد نے گزشتہ 12 ماہ کے دوران ہری مرچوں کا استعمال کس حد تک کیا تھا۔
ان افراد کے جوابات کو مدنظر رکھ کر انہیں 3 گروپس میں تقسیم کیا گیا۔
ایک گروپ ایسے افراد پر مشتمل تھا جو مرچوں کا استعمال بالکل بھی نہیں کرتے تھے، دوسرا ایسے افراد کا جو کبھی کبھار بار ہری مرچوں کا استعمال کرتے تھے جبکہ تیسرا ان افراد کا گروپ تھا جو ہر ہفتے کم از کم ایک بار ہری مرچیں استعمال کرتے تھے۔
اس کے بعد ان افراد کی غذا میں کیلوریز، پروٹینز، کاربوہائیڈریٹس، چکنائی، شکر اور فائبر وغیرہ کی مقدار کا جائزہ بھی لیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ ہری مرچوں کا زیادہ استعمال موٹاپے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
تحقیق کے مطابق دیگر عناصر بھی اس حوالے سے کردار ادا کرتے ہیں مگر زیادہ تر ایسے افراد موٹاپے کے شکار ہوتے ہیں جو ہری مرچوں کا استعمال زیادہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہر ہفتے میں کم از کم ایک بار ہری مرچوں کا استعمال کرنے والے 38 فیصد افراد کے موٹاپے کے شکار تھے جبکہ دیگر گروپس میں یہ شرح 30 اور 35 فیصد تھی۔
مزید تجزیے سے معلوم ہوا کہ ہری مرچوں کے شوقین افراد کا اوسط جسمانی وزن دیگر کے مقابلے میں تھوڑا زیادہ ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر ہری مرچوں کے شوقین افراد میں موٹاپے سے متاثر ہونے کا خطرہ 55 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
محققین نے تسلیم کیا کہ یہ محدود تھی تو نتائج کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
مگر ان کا کہنا تھا کہ غذا میں ہری مرچوں کی مقدار جسمانی وزن کو کنٹرول میں رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج فرنٹیئرز ان نیوٹریشن میں شائع ہوئے۔