آج سے تقریباً 90 برس پہلے 1935ء میں کوئٹہ میں اتنا شدید زلزلہ آیا تھا کہ جس نے تمام شہر کو تہہ و بالا کر دیا تھا‘اس میں 70 ہزار لوگ جاں بحق ہوئے تھے اور لاتعداد زخمی بھی‘ فرنگیوں کا دور تھا جو وہاں ایک کنٹونمنٹ میں رہتے تھے اس کو بھی زلزلے سے کافی نقصان پہنچا تھا چنانچہ تباہ شدہ شہر اور چھاؤنی کو دوبارہ بسانے کا کام فوراً شروع کیا گیا‘ اب کی دفعہ کشادہ گلیاں اور رستے بنائے گئے تاکہ زلزلے کی صورت میں وہاں ریسکیو rescue کے کام میں کوئی خلل نہ پڑے‘ نئے شہر کی تعمیر پہلی مرتبہ ایک بلڈنگ کوڈ کے تحت ہوئی جس کا فوری فائدہ یہ ہوا کہ 1941 ء میں جب ایک بار پھر زلزلہ آیا تو کوئٹہ بچ گیا اب ماہرین اراضیات کہہ رہے ہیں کہ کوئٹہ جس خطے میں واقع ہے وہاں ہر سو سال بعد زلزلے آتے رہتے ہیں ان کی دانست میں یہ شہر کسی بھی وقت زلزلے کا ایک مرتبہ پھر شکار ہو سکتا ہے وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ 1935 ء سے لے کر اب تک ہرسال 8ملی میٹرکی رفتار سے زمیں فالٹ لائن کے ساتھ سرک رہی ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ 1935 ء کی نسبت آج صورت حال زیادہ خطرناک ہے‘ ہر چند کہ کچھ عمارتیں بلڈنگ کوڈ کے مطابق تعمیر کی گئی ہیں لیکن ان کو بھی خطرات درپیش ہیں کیونکہ اکثر عمارتیں فالٹ لائن کے قریب ہیں‘نیز گلیاں اور سڑکیں بھی سکڑ گئی ہیں ایسے میں زلزلے کی صورت میں گیس پائپ لائن میں آگ لگنے اور پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ چنانچہ ارباب اقتدار کو ابھی سے ماہرین کی مشاورت کے بعد ضروری حفاظتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے‘یہاں پر اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ جب اسلام آباد کو بنانے کا منصوبہ تیار کیا جا رہا تھا تو ماہرین اراضیات نے اس وقت کے ارباب بست و کشاد کے نوٹس میں بھی یہ بات لائی تھی کہ ریکارڈ یہ بتا رہا ہے کہ جس جگہ یہ نیا شہر بنانے کی بات کی جا رہی ہے یہاں ہر پچاس برس بعد زلزلہ آ تا ہے پر ان کی اس بات کو در خور اعتنا نہ سمجھا گیا‘یہ بات انہوں نے 1960ء میں کی تھی‘پھر دنیا نے دیکھا کہ 50 سال بعد یعنی 2008 میں اسلام آباد زلزلے کا شکار ہوا‘ وطن عزیز میں جس رفتار سے لوگ اپنے اپنے زیر تعمیر گھروں میں بورنگ کروا کر زمین سے پانی نکال رہے ہیں وہ کسی وقت بھی ان شہروں میں پانی کا بحران پیدا کر سکتے ہیں کسی بھی متعلقہ سرکاری ادارے کو اندازہ ہی نہیں کہ جن جن جگہوں سے بورنگ کے ذریعے پانی کو پمپ کر کے باہر نکالا جا رہا ہے وہاں زیر زمین پانی کے ذخیرہ کی کیا پوزیشن ہے‘ وہ اب مزید کتنی آبادی کی پانی کی ضروریات پوری کر سکے گا‘ کئی علاقوں میں آج سے دو سال قبل 150 فٹ کی کھدائی پر جو پانی نکل آ یا کرتا تھا اب وہ 500 فٹ کی کھدائی کے بعد کہیں جا کر نکلتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیر زمین پانی کا سٹاک ختم ہوتا جا رہا ہے اس صورت حال کا ازالہ کرنے کے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ متعلقہ میونسپل اداروں کی پیشگی اجازت کے بغیر بورنگ کی اجازت نہ دی جائے۔
ان ابتدائی گذارشات کے بعد چند تازہ ترین واقعات پر ایک سرسری نظر ڈالنا بے جا نہ ہوگا۔خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع لکی کا امن عامہ دن بہ دن بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے اور دہشت گردوں کے ہاتھوں روزانہ سکیورٹی اداروں کے دلیر جوان جام شہادت نوش کر رہے ہیں اس صورت حال سے نبٹنے کیلئے ہماری وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کو بھی افغانستان کے متعلقہ حکام کے ساتھ مل جل کر افغانستان سے پاکستان کے اندر بارودی مواد کی سپلائی پر سختی سے کنٹرول کرنا ہو گا جس سے کابل کے گماشتے پاکستان کے اندر بارودی سرنگیں بچھا کر ہمارے امن عامہ قائم رکھنے والے اداروں کے اہلکاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں‘ دراصل جس قسم کی دہشت گردی کا مظاہرہ وطن دشمن عناصر اس ملک کے اندر کر رہے ہیں جیسا کہ خودکش حملے یا بارودی سرنگوں کو بچھانا‘ انہیں صرف پلاننگ کی سٹیج پر ہی ان کا سراغ لگا کر ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ ان کلمات کے ساتھ دور حاضر کے چند دیگر تازہ ترین اہم معاملات کا ذکر بھی کر دیتے ہیں کھیل کو کھیل سمجھنا چاہئے سیاسی اکھاڑہ یا میدان جنگ نہیں بنانا چاہیے ورنہ پھر سپورٹس مین سپرٹ sports man spirit نہیں رہتی۔ ہاکی کے میدان میں بھی تقریباً چالیس برس تک ہر عالمی سطح کے مقابلے میں ہمارا اور بھارت کا فائنل میں ٹاکرا ہوا کرتا تھا‘ پر اس قدر جنونیت ہم نے نہ دیکھی تھی جتنی کرکٹ میں دیکھ رہے ہیں‘سوشل میڈیا نے اس جنونیت کو حد درجہ ہوا دی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔